آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
وہاں تک ان کی عقل کی رسائی نہ ہو تووہ ضروربعضوں کے لئے خرابی کا باعث ہوگی (روایت کیا اس کو مسلم نے، تیسیرص۳۱۸) فائدہ: بعضے بے باک صوفی (اور علماء ومفتی )عوام کے سامنے بے تکلف تصوف کے دقائق (اورایسے علمی مضامین) بیان کربیٹھتے ہیں (جو ان کی فہم سے بالاتر ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں )بعضے عوام تو ان کو خلاف شریعت سمجھ کر ان کی تکذیب کرتے ہیں اور بعضے باوجود ان کی حقیقت نہ سمجھنے کے ان کو مان کر قواعدمشہورہ شرعیہ کے منکر ہوجاتے ہیں سوہرحال میں اللہ ورسول کی تکذیب کا تحقق ہواوالثانی أشدمن الأول اس حدیث میں اس عادت کی ممانعت ہے ۔۱؎مفتی کے فتوے پر بغیر دلیل معلوم کئے عمل کرنا جائز ہے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو بے تحقیق کوئی فتویٰ دیدے تو اس کا گناہ اس فتویٰ دینے والوں کو ہوگا روایت کیا اس کو ابوداؤدنے ۔ فائدہ: دیکھئے اگر تقلید جائز نہ ہوتی اور کسی کے فتویٰ پر بدوں معرفتِ دلیل کے عمل جائز نہ ہوتا جو حاصل ہے تقلید کا توگنہگار ہونے میں مفتی کی کیا تخصیص؟ بلکہ جس طرح مفتی کو غلط فتویٰ بتلانے کا گناہ ہوتا اسی طرح سائل کو دلیل تحقیق نہ کرنے کا گناہ ہوتا۔۲؎ (فتاوی المجتہدین بالنسبۃ الی العوام کالأدلۃ الشرعیۃ بالنسبۃ الی المجتہدین ،والدلیل علیہ أن وجود الأدلۃ بالنسبۃ الی المقلدین وعد مہا سوائٌ اذکانوا لایستفیدون منہا شیئاً ،فلیس النظر فی الأدلۃ والاستنباط من شأنہم ،ولا یجوز ذالک لہم البتۃ ، وقد قال تعالیٰ فَسْئَلُوْ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ،والمقلد غیرعالم، فلایصح لہ الا سؤال أہل الذکر ،والیہم مرجعہ فی احکام الدین علی الاطلاق ، فہم اذاً القائمون لہ‘ مقام الشارع، واقوالہم قائمۃ مقام الشارع ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فثبت أن قول المجتہد دلیل العامی ۔)(الموافقات للشاطبی ،کتاب الاجتہاد ، المسئلۃ التاسعۃ ص۱۸۵ج۴) ------------------------------ ۱؎ التکشف عن مھمات التصوفص :۳۳۷ ۲؎ الاقتصاد فی بحث التقلید والاجتہاد