آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
یعنی تحسین نیت سے وہ مباح یاطاعت نہیں ہوجاتی ، آیات وروایات مرقومہ بالا کااطلاق اس کی کافی دلیل ہے ۔مگر اس کی تنویر کے لئے حضرت مولانا گنگوہی ؒ کی ایک ارشاد فرمودہ مثال یاد آگئی کہ اگر کوئی شخص ناچ ورنگ کی محفل اس نیت سے منعقدکرے کہ نمازی اذان سن کر توآتے نہیں ناچ دیکھنے کے واسطے جمع ہوجائیں گے ،پھر سب کو مجبور کرکے نماز پڑھوا دوں گا ، توکیاکوئی شخص اس نیت سے ناچ کرانے کو جائز کہہ سکتا ہے؟ بلکہ معصیت میں طاعت کی نیت قواعد شرعیہ کی روسے زیادہ خطرناک ہے جیسے حرام چیز پر بسم اللہ کہنے کو فقہاء نے قریب بکفرکہا ہے ۔ تفریع: امید ہے کہ ان کلیات سے سب جزئی سوالات کا جواب ہوگیا، الحمدللہ ان جوابوں میں اس آیت پر عمل نصیب ہوگیا وَقُلِّ لِعِبَادِیْ یَقُوْلُوْاالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ الآیۃ۔۱؎کسی کے کہنے یا کسی پالیسی کے تحت جواب نہ دینا چاہئے فرمایا کہ میں اہل علم کو متنبہ کرتا ہوں کہ فتوے میں یہ طریق اختیارکریں کہ کسی کے کہنے سے دوسرے پر فتوے نہ لگائیں اسی طرح سے کسی پر کفر کا فتوی نہ لگائیں ۔ ایک شخص نے کہا کہ فلاں کا یہ فاسد عقیدہ ہے اور وہ یوں کہتا ہے، فرمایا: جس شخص کا یہ عقیدہ ہو اس سے لکھوا کر لاؤ۔۲؎ فرمایا کہ میں کوئی جواب کسی خاص پالیسی اور مصلحت سے نہیں لکھتا، اس وقت جس قدر مضامین آتے ہیں سادگی سے وہی لکھ دیتا ہوں تکلف کرکے نہیں لکھتا اسی طرح بے تکلفی کی یہ بات ہے کہ بعض خط ایسا ہوتا ہے کہ چار چار پانچ پانچ روز رکھا رہتا ہے جب تک شرح صدر نہیں ہوتا تب تک نہیں لکھتا۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ بوادرالنوادرص۸۱۵ ۲؎ کلمۃ الحق ص۳۳۔ ۳؎ حسن العزیز ۲؍۴۰۵۔