آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کہنے والوں نے بہت زورمارااوراس فعل کوسنت اور اس کے خلاف کو بدعت ثابت کرہی دیاتب بھی سنت کے تارک پر خلودفی النار کی وعید کہاں آئی ہے؟ تارک سنت اور کافر کو برابر کیسے کیاجاسکتاہے؟ دونوں کے واسطے خلود فی النار کا حکم کیسے لگایا جاسکتا ہے؟ ضروری ہے کہ دونوں میں فرق کیاجائے،اب سمجھ میں آگیا ہوگا کہ ہربات پر کفر کاحکم لگادینا عقل وشریعت کی رو سے کہاں تک صحیح ہے۔۱؎اہلِ حق کا طریقہ اہلِ حق کا طریقہ یہی ہے کہ حتی الامکان جب تک کوئی بھی تاویل بن سکے کسی کوکافر نہ بتائیں ،ہاں اگر کوئی خودہی تاویل کو بھی ردکردے تو مجبوری ہے، اب مدعی سست اور گواہ چست کا قصہ ہے ،باقی اپنی طرف سے کبھی کسی کو کا فر نہیں بناتے۔ وہ تو ادنیٰ ساگناہ بھی کسی کے ذمہ لگانا پسند نہیں کرتے چہ جائیکہ کفر، کیوں کہ کسی کے لئے کفرثابت کردینے کے یہی معنیٰ ہیں کہ اس کو ابدالآباد (ہمیشہ) کے لئے رحمت خداوندی سے مایوس اور محروم بنادیاجائے یہ ان سے کب ہوسکتا ہے، ان کا اگر اختیار ہو تومسلمان کو توکافر کہنا درکنار، کافر کو بھی کافر نہ رہنے دیں ۔ غرض کفر بہت بڑاحکم ہے اس کانام بھی ان کی زبان پر آنا مشکل ہے ، یہ اور بات ہے کہ کوئی خودہی کافربننا اور رحمت الٰہی سے خارج ہونا چاہے، یہ (اہل حق) اس وقت بھی دل سے چاہتے ہیں کہ یہ کافر نہ بنے ، مگر جب وہ خود ہی ڈوبنا چاہتا ہے توکسی کا کیابس ہے ،حکم شرعی کو تویہ بدل نہیں سکتے ،بدرجۂ مجبوری فتویٰ دے دیں گے تو اس وقت انہوں نے کافرنہیں بنایابلکہ وہ خود ہی کافر بنا انہوں نے صرف بتلادیا ہے کہ یہ کفر ہوگیا،انہوں نے بالکل ہی مضطر ہوکر یہ فتویٰ دیا ہے اگر بعید سے بعید بھی تاویل ان کو مل جائے تو وہ اس کو کفر کے حکم سے بچادیتے ہیں ، اللہ والوں کا یہی طریقہ ہے ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ الاسلام الحقیقی ص۴۸۲،۴۶۴ ۲؎ الاسلام الحقیقی ملحقہ محاسن اسلام ص۴۵۸