آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
میں داغ دھبہ نہ ہو، چنانچہ ایسی گائے ان کو تلاش کرنا پڑی اور بہ ہزاردقت رقم کثیر خرچ کرکے بہم پہنچی ،حدیث میں آیا ہے کہ اگر بنی اسرائیل اتنی حجت نہ کرتے اور جیسے ہی حکم ہوا تھا فوراً کوئی سی گائے ذبح کرڈالتے تو کافی ہوجاتی، یہ تنگی کثرت سوال کی وجہ سے ہوئی حق تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس امت کو حق تعالیٰ نے خودہی اس فعل سے منع فرمادیا، چنانچہ ارشاد ہے: یَااَیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَسْئَلُوْاعَنْ اَشْیَائَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ (مائدہ پ۷) (اے ایمان والو!وہ باتیں مت پوچھو کہ اگر ظاہر کردی جاویں تو تمہاری ناگواری کا سبب ہو)اور آگے یہ بھی فرمادیا قَدْسَأَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْابِہَا کَافِِرِیْنَ (مائدہ پ۷) یعنی تم سے پہلی امت نے یہ طریقہ اختیارکیا تھا کہ احکام میں اس طرح حجتیں کرتے تھے گویا تحقیق کررہے ہیں لیکن جب حکم ہوتا اور اس کی پوری شرح کردی جاتی تو اس کی امتثال(اطاعت) سے انکار کردیتے ہیں ، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ حجتیں کرنا اسی بات کی علامت ہے کہ اس شحص کو کام کرنا منظور نہیں کام کرنے والا ہمیشہ ڈراکرتا ہے کہ خداجانے مجھ سے تعمیل ہوسکے گی یانہیں ، اسی واسطے وہ اپنے اوپر تنگی کو اختیارکرتا ہے، بنی اسرائیل بڑے سرکش تھے انہوں نے حجتیں چھاٹیں اور تقرریں کرکے اپنے اوپر مصیبت لادی، اس امت پر خدا کا فضل رہا کہ کہ حضرات صحابہ حکم کو سن کر اس میں شقوق اور احتمالات نہ نکالتے تھے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت وشفقت یہ برکت حضور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے کہ اس امت نے سہولت پسندی کو اپنا شعار بنایا اور جب کبھی اس کے خلاف کوئی جھوٹا واقعہ بھی ہواجب ہی حق تعالیٰ نے آیت اتاردی اور بالتصریح اس کی ممانعت فرمادی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم