آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
بشریت ہے تو یہ شخص اہل ہے فتویٰ لکھنے کا،جیسے مطب کرنے کا وہی اہل ہوتا ہے جس نے کسی ماہر اور تجربہ کار طبیب کے مطب میں نسخے لکھ لکھ کر مریضوں کا علاج کیا ہو اوراس کے علاج کو اس طبیب نے پسند کیا ہو اسکے نسخے جو اب طبیبوں کو دکھلائے جاتے ہیں تو اگر کوئی معاند نہ ہوگا تو وہ کہے گا کہ باقاعدہ نسخہ ہے۔۱؎ مفتی کے واسطے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے زمانہ کے عرف اور اہل زمانہ کے احوال سے بخوبی واقف ہواور کسی ماہر استاد سے فتویٰ دینے کا طریقہ بھی حاصل کیاہو۔۲؎اردوداں طبقے وکلاء اور عقلاء کو فقہ وفتویٰ کی محض اردو کی کتابوں کو دیکھ کر فتویٰ دینے کی اجازت کیوں نہیں ؟ آج کل وکلاء بھی ہدایہ کا امتحان دیتے ہیں ،ہدایہ کا توکیا دیتے ہدایہ کے ترجمہ کا امتحان دیتے ہیں ،آج کل ہر علم وفن کے ترجمے ہوگئے ہیں منجملہ ان کے فقہ بھی ہے، ہدایہ کا بھی ترجمہ ہوگیا ہے ، مگر ترجمہ کی خوبی سنئے! میں پھر مکررکہتا ہوں کہ ترجموں سے کام نہیں چل سکتا کام اگر چلتا ہے تو علماء کی جوتیاں سیدھی کرنے (یعنی شاگردی اختیارکرنے )سے چلتا ہے ،اب ترجمہ کی خوبی کا ایک واقعہ سنئے ! ایک شخص نے اپنی بی بی کو تین طلاق دیدی اس کا حکم مشہور ہے کہ طلاق مغلظ ہوجاتی ہے اور اب کوئی صورت رجوع کی یادوبارہ نکاح کی باقی نہیں رہتی سوائے اس کے کہ حلالہ کیاجاوے جس کو کوئی گوارا نہیں کرتا لیکن اس عورت کے گھروالے سرتھے کہ ہم تو اس کو اسی شوہر کی بی بی بنائیں گے ۔ میرے پاس مسئلہ پوچھنے آئے میں نے کہا: اب وہ بالکل حرام ہے کوئی صورت باقی نہیں (سوائے حلالہ کے) جب وہ مولویوں سے مایوس ہوئے تو ------------------------------ ۱؎ ومضان فی رمضان ص:۳۲۹، ملحقہ فضائل صوم و صلوۃ۔ ۲؎ الحیلۃ الناجزہ ص۴۶