آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ایک وعظ کی بعض باتوں پر اشکال اور حضرت تھانویؒ کا جواب حضرت والا کے ایک وعظ کی بعض مثالوں پر یہ شکایت کی گئی ہے کہ اس میں (بعض برادریوں کی )دل آزاری کی گئی ہے ۔۔۔۔حضرت ؒ نے جواب تحریرفرمایا: السلام علیکم اول تین وجہ سے جواب نہیں دیاگیا تھا ایک وجہ یہ کہ میں اس سے زیادہ اہم خدمات دینیہ میں فاقدالفرصت تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ وہ سوال خلاف اصول تھا حقیقت کے اعتبار سے بھی کیونکہ میرافعل میری رائے میں خلاف شریعت نہیں اور صحیح طریق کے اعتبارسے بھی اس لئے کہ صحیح طریق یہ ہے کہ جواب کے لئے ٹکٹ بھی رکھا جائے ۔ تیسری وجہ یہ کہ غایت وضوح کے سبب یہ تو قع تھی کہ خود ہی جواب ذہن میں آجائے گا لیکن بار بار کے سوال سے وہ توقع نہ رہی گوخلاف اصول ہونے کے سبب اب بھی جواب میرے ذمہ نہیں لیکن تفہیم کی مصلحت سے تبرعاً جواب لکھتاہوں وہ یہ کہ: میر ایہ فعل اگر خلاف شریعت سمجھا جاتا ہے تو مستند علماء اہل فتویٰ سے استفتاء کرکے حکم حاصل کرلیاجائے ،میں اس حکم کو دل وجان سے قبول کرنے کے لئے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیارہوں اور احتیاط یہ ہے کہ ان علماء کی خدمت میں یہ بھی عرض کردیا جائے کہ جواب لکھتے وقت احیاء العلوم ودرمختار مع ردالمحتار کو بھی ملاحظہ فرمالیں ،نیز اس استفتاء کے ساتھ دوسرا استفتاء کرلینا بھی مناسب ہے کہ بدون دلیل شرعی کے کسی نسبت کا دعویٰ کرنا تحقیق سے یاتاویل سے کیسا ہے؟ اور اس دلیل اورتاویل کو بھی ظاہر کردیاجائے اور اگر میرا فعل محض خلاف طبیعت ہی ہے تومیری قوم یعنی فاروقیین کی بزعم خود تنقیص کرکے دل ٹھنڈا کرلیا جائے آگے نیتوں کا حقیقی فیصلہ انماالاعمال بالنیات وقت پر ہورہے گا اوراگر اس پر بھی قناعت نہ ہوتو احکام شرع وعقوبتِ آخرت کو پیش نظر رکھ کر اختیارہے ۔ والسلام ۲۵؍رجب ۱۳۵۱ھ یوم جمعہ (کمالات اشرفیہ ص۳۹۷)