آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ایسا گمان جائز نہیں ، یہ ہے علماء کے دنیا میں مشغول ہونے کا نتیجہ کہ مسائل میں ان کا اعتبار نہیں رہتا ،ان کے دنیا میں مشغول ہونے میں خرابی یہ ہے کہ خود تم کو ان کے فتوؤں کا، ان کے وعظوں کا اعتبارنہ ہوگا۔ ۱؎سنبھل کر رہئے اوراپنی عزت واعتماداور حسن ظن برقرار رکھئے افسوس بعض علماء کی حالت پر ہے کہ اغراض کی بدولت راہ سے بھی گرگئے، نظر سے بھی گرگئے ،عوام کو ان سے بدگمانی ہونے لگی ،اگر علماء اپنی آن بان کو باقی رکھتے توان کی بڑی قدرہوتی اور ان پر اعتماد بھی ہوتا مگر یہ بھی پھسلنے لگے، بس ان کے پھسلنے پر زیادہ رنج ہے اس لئے کہ ان کے پھسلنے سے عوام کے گمراہ ہونے کا سخت اندیشہ ہے ،اس لئے میں ہمیشہ اس کی کوشش کرتاہوں کہ علماء سے لوگ بدظن نہ ہوں ، ان کے ساتھ مربوط رہیں کہ ان کے دین کی سلامتی اسی میں منحصر ہے ،اس بداعتمادی پر ایک واقعہ یاد آیا کہ ایک بڑی بی نے مجھ سے مسئلہ پوچھا کہ زکوٰۃ کا روپیہ مدرسہ میں دینا جائز ہے؟ میں نے کہا کہ جائز ہے مگر مہتمم مدرسہ سے کہہ دیاجاوے کہ یہ زکوٰۃ کا روپیہ ہے تاکہ وہ اس کے مصرف میں صرف کردیں ، وہ خوش ہوئیں اور کہا کہ مدرسہ میں جو مولوی صاحب ہیں میں نے ان سے بھی پوچھا تھا انہوں نے بھی یہی بتلایا تھا مگر مجھ کو اطمینان نہ ہواتھا کہ شاید اپنے مدرسہ کی غرض سے بتلادیا ہو اس لئے میں نے خیال کیا کہ آپ سے پوچھوں ، بتلائیے یہ بدگمانی کس درجہ کی بات ہے ،پھر جب اہل علم پر اعتماد نہ ہوگا تو مسائل کس سے پوچھیں گے، اسی لئے میں کہا کرتاہوں کہ علماء کو بہت سنبھل کررہنے کی ضرورت ہے ، ان جاہل صوفیوں اور درویشوں کی حرکات سے اس قدر عوام کی گمراہی کا اندیشہ نہیں ہے ، جس قدر اہل علم اور علماء کے پھسل جانے سے گمراہی کا اندیشہ ہے، ان کو بہت سنبھل کر چلنے کی ضرور ت ہے۔ ۲؎ ------------------------------ ۱؎ ۲؎ التبلیغ ص۶۹ ۲؎ ملفوظات حکیم الامت ص۳۲۶ج۲قسط ۳