آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فضول سوال کے جواب سے اعراض یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ (سورہ بقرہ پ ۲) (ترجمہ )آپ(ﷺ) سے چاند کی حالت کی تحقیقات کرتے ہیں ،آپ ﷺ فرمادیجئے کہ وہ چاند آلۂ شناخت اوقات ہیں لوگوں کے لئے اور حج کے لئے ۔ فائدہ: اس میں اعراض عن الفضول پر دلیل ہے اور اس پر بھی شیخ کوحق ہے کہ بعض سوالات سے منع کردے خواہ صریحاً خواہ اس طورسے کہ جو پوچھا گیا ہے اس کا جواب نہ دے دوسرا جواب دے دے۔۱؎ضروری اور غیر ضروری سوال کا معیار جو کلام بھی غیر ضروری ہوگا اس سے قلب میں کدورت ہوتی ہے اور ضروری چیز کا معیار یہ ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ضرر مرتب ہو۔۲؎ہر سوال کا جواب ہر شخص کو کیوں نہیں دینا چاہئے؟ آج کل یہ مرض ہے کہ ہر سوال کا جواب ہر سوال کرنے والے کو دے دیا جاتا ہے حالانکہ ہر سوال کا جواب ہر سائل کے مناسب نہیں ہوتا مثلاً اگر کوئی شخص طبیب سے سنکھیا اور کچلہ کے مدبرّ کرنے کی ترکیب پوچھے توگو طبیب ناواقف نہیں لیکن ہر کسی کو ترکیب بتا دینا (کیا) مناسب ہے؟ اگر کسی طبیب کو کسی مریض پر اطمینان نہ ہو تو اس کو ہرگز وہ نسخہ نہ بتائے گا۔ اسی طرح علماء کو چاہئے کہ یہ سمجھیں کہ کون سوال کس کے منصب کے موافق ہے۔ بعض غیر ضروری سوال ہوتے ہیں بعض غیر مناسب اگر کوئی اصرار کرے تو کہہ دے کہ مجھے تحقیق نہیں اور اگر یہ کہتے ہوئے عار آئے تو کہہ دے کہ یہ سوال تمہارے منصب سے بالا تر ہے بہت سے بہت وہ یہ سمجھے گا کہ انہیں کچھ آتا نہیں تو اس سے تمہارا کیا نقصان ہے۔ ------------------------------ ۱؎ بیان القرآن، مسائل السلوک ص۷۵ ۲؎ الافاضات ۲؍۳۸۔