آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
ایسے حالات میں اہل علم وارباب فتاویٰ کے لئے مشورہ میراطرز عمل اور مشورہ مذکور ہے ،ان اعمال میں جو امور شرعاً منکر ہیں ان کو اعتقاداً اور عملاً واجب الترک جانتاہوں اور جو مستحسن اتفاقی ہیں ان کو اعتقاداً توحسن جانتاہوں باقی عملاً جن پر قدرت ہے ان کو قابل عمل اور جن پر قدرت نہیں ان میں اپنے کو معذور سمجھتا ہوں اور جو اختلافی ہیں ان میں اپنی تحقیق پر عمل کرتاہوں اور دوسری جانب کو بھی محل ملامت نہیں سمجھتا اورنہ ان میں کسی کو اپنے مسلک کی طرف دعوت دیتاہوں البتہ کو ئی مخلص خواہ واقع میں مخلص ہوخواہ اپنے کو مخلص ظاہرکرے اور میراوجدان اس کی تکذیب نہ کرے ایسا شخص اگر میرے مسلک کو دریافت کرتاہے اور مجھ کو وجدان سے دوامرمظنون ہوں ایک یہ کہ متردد ہے دوسرے یہ کہ عمل کے لئے پوچھتا ہے کسی سے قیل وقال یا بحث وجدال نہ کرے گا اس کو خاص طورپر بتلادیتا ہوں باقی کسی کو خودکچھ نہیں کہتا اور دیانت اسی کو سمجھتاہوں کہ جس شق کا حق ہونا محقق ہو اسی کو اختیارکرے محض مال یاجاہ کی غرض سے اس کو ترک نہ کرے ہاں شرعاً اکراہ کا درجہ ہوجاوے خواہ حکام سے یاعوام سے اس وقت اکراہ کے مسائل پر عمل کرلے اور دوسری شق مختلف فیہ میں اختلاف والوں کی مخالفت یا ان کے خلاف کی کوشش نہ کرے اوریہی دوسرے مسلمانوں کو بھی مشورہ دیتاہوں پھر باوجود میرے اس قدر صفائی اور نرمی کے اگر پھر بھی کوئی مجھ کو بدنام کرے تو بجز اس کے کیا کہہ سکتا ہوں وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌبِالْعِبَادِ۰ وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہٖ سیدنا ومولانا محمد واٰلہٖ واصحابہ اجمعین واٰخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔ نصف ربیع الاول ۱۳۴۰ھ۔ (افادات اشرفیہ ص۱۴)