آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فصل (۶) کس حالت میں اور کس قسم کے خطوط کا جواب نہیں دینا چاہئے (۱) فرمایا: جب طبیعت نہ چلے اور تدبر نہ ہو تو غلطی کا احتمال ہوتے ہوئے جواب نہ دینا چاہئے، میرے پاس استفتاء کثرت سے آتے ہیں باستثناء بعض اکثر کے جواب میں یہ لکھ دیتا ہوں کہ دیوبند سے دریافت کرلو۔۱؎ بعض صحابہ سے جو فقہی مسائل پوچھے جاتے تھے وہ دوسروں پر حوالہ کردیتے تھے ان کے نام بھی لکھے ہیں وجہ یہ ہے کہ توجہ ایک ہی طرف ہوسکتی ہے دو طرف نہیں ہوسکتی۔۲؎ (۲) میرا تو قاعدہ ہے کہ اگر کسی خط کی عبارت ایسی ہوتی ہے کہ کئی معنی کو محتمل ہو تو میں لکھ دیتا ہوں کہ عبارت واضح لکھو اور جو فضول بات ہوتی ہے اس کا جواب ہی نہیں دیتا۔۳؎ (۳) مجھ کو جب تک شرح صدر نہ ہوجائے جواب نہیں دیتا، تردد کی صورت میں جواب دینا جائز نہیں ، بعض خط چار چار پانچ پانچ روز تک رکھا رہتا ہے جب تک شرح صدر نہیں ہوتا تب تک جواب نہیں لکھتا۔۴؎ (۴) فرمایا: میں راستہ میں مسئلہ نہیں بتلایا کرتا وہاں اطمینان تو ہوتا نہیں ۔ ۵؎غیر جوابی خطوط کا جواب بیرنگ بنا کر نہ بھیجنا چاہئے حضرتؒ بلاجوابی ٹکٹ یا لفافہ کے جواب نہیں دیتے تھے، ایک صاحب نے عرض کیا کہ وہ جواب کا منتظر ہوگا بیرنگ بھیج دیا کیجئے، فرمایا کہ میں پہلے ایسا ہی کیا کرتا تھا. ------------------------------ ۱؎ حسن العزیز ۳؍۱۹۱-۱۹۲ ۲؎ ایضاً۳؍۶۵ ۳؎ ایضاً۳؍۶۵۔۴؎ ایضاً ۳؍۵۹۔ ۵؎ ملفوظات اشرفیہ ص۳۷۲۔