آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
لیکن ایک عزیز نے شرح جامع صغیر میں یہ حدیث دکھلائی : نہی ان یصلی علی الجنائز بین القبور (طس عن انس)اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے: فانہا صلوٰۃ شرعیۃ والصلوٰۃ فی المقبرہ مکروہ تنزیہا، اور یہ بھی کہاہے اسناد ہ حسن ،یہ اس باب میں صریح روایت ہے، اوردرایت محضہ پر روایت مقدم ہے لہٰذا اس فتوے سابقہ سے رجوع کرتاہوں ، گونماز ادا ہوجائے گی، مگر کراہت کا حکم کیاجائے گا جیسا کہ عزیزی کا قول اوپر نقل کیا گیا ہے ا ور غور کرنے سے اس درایت کا جواب بھی ذہن میں آگیا وہ یہ کہ فقہاء نے نمازی کے سامنے شمع وسراج کے ہونے کو جائز فرمایا ہے اور انگارے کے سامنے ہونے کو مکروہ فرمایا ہے اور وجہ فرق یہ بیان کی ہے: لانہ لم یعبدہما احدوالمجوس یعبدون الجمرلاالنار الموقدۃ ۱؎ پس یہی فرق قبراور نعش میں ہوسکتا ہے کہ قبر کی پرستش معتاد ہے، نعش کی معتاد نہیں ، پس درایت کا شبہ بھی ساقط ہوگیا اور کراہت کا حکم محفوظ رہا ،واللہ اعلم۔۲؎رفع سبّابہ کے سلسلہ میں بہشتی زیور کے ایک مسئلہ سے رجوع حالت تشہد میں کلمہ شہادت کے وقت اشارہ کرنے کے بعد حلقہ کی ہیئت کو اخیر تک باقی رکھے یاختم کردے؟ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : بہشتی زیور کے مسئلہ سے رجوع کرتاہوں ،اور اس کو اس طرح بدلتاہوں ’’تشہد میں لاالہ کے وقت انگلی اٹھاوے اور الااللہ پر جھکادے ، مگر عقد اور حلقہ کی ہیئت کو اخیرنماز تک باقی رکھے ،جزاکم اللہ علی ہٰذا التنبیہ۔۳؎ فائدہ: بہشتی زیور میں اسی کے مطابق اصلاح کی جاچکی ہے ۔ ------------------------------ ۱؎ درمختار وردالمحتار ۱/۶۱۰ ۲؎ امدادالفتاویٰ ص۷۳۳ سوال ۶۷۳ ۳؎امدادالفتاویٰ ص۲۰۷ج۱ سوال نمبر ۱۹۶