آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
امت کو جاہل مولوی اور نام نہاد مفتی کے ضرر سے بچانے کا اہتمام اور حکمت عملی بعضے(مولوی) ایسے بھی گذرے ہیں کہ قصداً توتلبیس نہ کرتے تھے مگر علمی سرمایہ کی کمی سے بعضے امراض کے اثرسے بے اصول جواب ان سے صادر ہوجاتے تھے، ممکن ہے کہ وہ معذور ہوں مگر عوام کو ضررتوپہونچ جاتا ہے جس سے بچانا ضروری تھا اور بچانے کی باضابطہ صورت یہی ہے کہ ان کا ابطال کیا جاوے(اور ان پر فتویٰ دینے اور مسئلہ بتانے سے پابندی لگائی جائے) مگر بعض مقامات پر اس سے فتنہ ہوجاتا ہے اس لئے ایسے موقع پر تحصیلِ مقصود کے لئے بڑی حکمت کی ضرورت ہے ۔ حضرت مولانا گنگوہی ؒ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی حکیم بنایا تھا ،اس حکمت کا ایک واقعہ ہے ،مولاناکے ابتدائی وقت میں ایک بزرگ تھے مولوی سالاربخش صاحب وہ اس علاقہ میں بہت زیادہ بااثر تھے، مگر مسائل بے اصل بیان کرتے تھے، مولانا کی فراست قابلِ ملاحظہ ہے ،ایک شخص مولانا سے مسئلہ پوچھنے آیا، اتفاق سے اس وقت مولوی سالاربخش صاحب گنگوہ آئے ہوئے تھے ، مولانا نے اسی حکمت پر نظر فرماکر اس شخص سے فرمایا کہ بڑے مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں ان سے مسئلہ پوچھو، ان کے سامنے میں کیا چیز ہوں ، وہ شخص مولوی سالار بخش صاحب کے پاس پہونچا اور ان سے مسئلہ دریافت کیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ میں مولانا رشید احمد صاحب سے مسئلہ پوچھنے گیاتھا ،انہوں نے یہ فرمایا کہ ہم مولوی صاحب کے سامنے کیا چیز ہیں ،مولوی سالاربخش صاحب بڑے خوش ہوئے اور خوشی کے جوش میں بولے کہ واقعی وہ بڑے عالم ہیں ، آج سے ہم نے یہ کام ان ہی کے سپرد کردیا ،بس مسائل ان ہی سے پوچھا کرو، ہم سے پوچھنے کی ضرورت