آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
دوسری یہ عرض ہے کہ جس ملک میں تراضیٔ مسلمین سے قاضی کو قوت وشوکت حاصل ہوجائے وہاں تو کچھ گنجائش بھی ہوسکتی ہے، مگراس ملک میں تقرر عامہ سے کچھ کام نہیں چل سکتا بلکہ ایک اختلاف جدید کا وسیع باب کھل جائے گااس لئے اس کو صحیح کہنا کسی طرح قرین قیاس نہیں ۔ (تحریر مولانا عبدالکریم صاحب حسبِ حکم حکیم الامت حضرت تھانویؒ ، تصویب حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ،۱؎ الحیلۃ الناجزۃ ص۲۲۷)ایسا کیوں ؟ نصب خلیفہ(یعنی امیر مقررکرنا) واجب ہے، لیکن واجب کے لئے قدرت شرط ہے اور قدرت اس وقت مفقود ہے اس واسطے گوعالَم اس وقت خلیفہ سے خالی ہے لیکن بایں حالات خلیفہ کے نہ ہونے سے کوئی گناہ نہیں ۔ ۲؎ (الغرض) امام کا مقرر کرنا دیگردلائل سے واجب ہے اور تمام واجبات کا وجوب قدرت کے ساتھ مشروط ہے اور امام مقرر کرنے پر قدرت کی شرائط میں مسلمانوں کا اتفاق بھی ہے اور وہ موجودہ حالت میں (قدرت قہریہ نہ ہونے کی بناپر) کبریت احمر (گویامحال) ہے ،لہٰذا نہ گناہ لازم آئے گا نہ جاہلیت کی موت لازم آئے گی۔۳؎ جس طرح امام خلیفہ کی اطاعت واجب ہے اسی طرح سلطان کی بھی یعنی جس کو تسلط وشوکت (اور غلبہ) حاصل ہوجائے اور مسلمان اس کے سایۂ حمایت میں امن وعافیت سے رہ سکیں ،سوسلطان ہونے کے لئے وہ شرائط نہیں جوامامت وخلافت کے لئے ہیں البتہ اسلام شرط ہے ،لقولہ تعالیٰ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔۴؎ اس کام میں ضرورت ہے اتفاق کی ۔۔۔۔اس کے لئے ارادت کافی نہیں ------------------------------ ۱؎ الحیلۃ الناجزہ ص ۲۲۷ ۲؎الکلام الحسن ص:۱۵ ۳؎ امدادالفتاویٰ ۴/۳۶۹ سوال ۴۶۱ ۴؎ فروع الایمان ص۷۷