آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
(بلکہ ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے جس کے (صحیح و سقیم ہونے کو) اپنے احاطۂ علمی میں نہیں لائے اور ہنوز ان کواس کا آخری نتیجہ نہیں ملا)۔ وقال تعالیٰ: وَاِذْ لَمْ یَہْتَدُوْا بِہِ فَسَیَقُوْلُوْنَ ہٰذَا اِفْکٌ قَدِیْمٌ۔ ۱؎ (اور جب ان لوگوں کو قرآن سے ہدایت نصیب نہ ہوئی تو یہی کہیں گے کہ یہ قدیمی جھوٹ ہے)۔ ولنعم ما قیل ؎ وکم من عائب قولاً صحیحاً وآفتہ من الفہم السقیم (اور کتنے لوگ ہیں جو درست بات میں عیب نکالنے والے ہیں ، اور اس کی مصیبت سمجھ کی بیماری ہے)۔ کیا یہ غضب اور ستم نہیں ہے کہ ہر زمانہ میں ایسوں کی تکفیر ہوئی جن کی برکت سے علوم اسلامیہ کا احیاء ہوا ، اور جن کے فیض سے برکات دینیہ کا القاء ہوا۔۲؎کفرکا فتویٰ دینے کے لیے بعض شرائط اور اگر کسی بزرگ کا کلام مأول نہ ہوسکے تو اس کی تکفیر سے یہ اسہل واسلم ہے کہ اس کلام ہی کی نسبت کا انکار کردیا جائے۔ اور غلبۂ حال کی تاویل کے رد کرنے کے لیے بعض متقشفین عذر کو ان چند عذروں میں سمجھتے ہیں جن کو اصولیین نے بوجہ کثرت وقوع ذکر کردیا ہے، اور اس تخصیص ذکری کو تخصیص واقعی سمجھ کر دوسرے عذروں کی نفی ہی کردی، حالانکہ ان میں عذر منحصر نہ ہونا خود فقہاء ہی کے کلام میں مصرح ہے۔ ------------------------------ ۱؎ الاحقاف آیت:۱۱ ۲؎ اصلاح انقلاب