آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اگر کوئی طالب آئے تو جواب سے گریز نہ کرنا چاہئے کیونکہ طالب سے انکار کرنا یہ خداع ہے، ناجائز ہے اگر کوئی شخص کوئی سودا خریدنے جائے اور ایک دکاندار کہہ دے کہ میرے یہاں نہیں ہے تو وہ بے چارہ یوں ہی رہا، ہاں غیر طالب سے کہہ دے کہ میں کچھ نہیں ہوں اس میں کچھ حرج نہیں ۔۱؎مفتی کو عوام کی چالبازیوں سے و اقف ہونا چاہئے لوگ آج کل علماء کو اپنی جنگ کی آڑ بناتے ہیں اور خود الگ رہتے ہیں ، میں ان کی رگوں سے خوب واقف ہوں ، جوابوں میں اس کی رعایت رکھتا ہوں اس لیے یہاں کے جوابوں سے لوگ خوش نہیں ہوتے۔ ایک خط میں بطور شکایت لکھا آیا تھا کہ یہاں کی انجمن میں اتنے عرصے سے مد زکوۃ کا روپیہ جمع ہے اگر لوگ ان سے صرف کرنے کو کہتے ہیں یا حساب مانگتے ہیں تو کوئی جواب نہیں دیتے ایسی صورت میں شرعی حکم کیا ہے؟ میں سمجھ گیا کہ فتویٰ حاصل کرکے لوگوں کو دکھاتے پھریں گے اور فساد برپا کریں گے، میں نے جواب لکھا کہ ’’ان انجمن والوں سے اس کا جواب لے کر کہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ سوال درج کرو، اور پھر فتویٰ حاصل کرو‘‘ اس جواب سے بھلا کیاخوش ہوں گے۔۲؎ ایک استفتاء آیا ہے کہ قبرستان میں لنگی باندھ کر جانا جائز ہے یا نہیں اور یہ نہ پوچھا کہ مسجد میں نماز کے واسطے لنگی باندھ کر جانا جائز ہے یا نہیں ؟ اس سائل نے لنگی میں پردہ کم سمجھا تو اللہ میاں کے سامنے چاہے ننگے جائیں مگر قبرستان میں ننگے نہ جائیں یہ عقیدہ کی خرابی ہے۔۳؎ ط------------------------------ ۱؎ حسن العزیز ۱؍۲۷۱۔ ۲؎ الافاضات ۲؍۱۰۔ ۳؎ کلمۃ الحق ص:۱۷۱۔