آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
متواتر نہ ہوتا توبھی کچھ حرج نہ تھا، کیونکہ ان کو مرتبہ قطع کا دوسرے طریق سے حاصل تھا، بالجملہ بعد کا تواتر وعدم تواتر صحابہ کی قطعیت کے لیے کسی طرح مزاحم نہیں تو یہ دونوں مقیس و مقیس علیہ برابر ہوئے، ہاں مابعد صحابہ کے لیے یہ صورت ممکن نہیں کیونکہ ان کوبجز تواتر کے قطع کا کوئی ذریعہ نہیں تواگر وہ انکار کریں تو یقینا بلااعتماد کسی قطعی کے انکار قطعی لازم آئے گا ہاں بعض صور میں اگر انکار رسم خط کی طرف راجع کیا جائے تو زیادہ چسپاں ہوتا ہے فقط۔ ( خلیل احمد)سوال حضرت مولانا اشرف علی صاحب بر جواب بالا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جواب مرقوم سامی میں بوجہ کم علمی اتنا خلجان اور باقی رہ گیا کہ اگر یہ احتمال فرض کیا جائے کہ مواضع مبحوث فیہا میں ان حضرات نے ان کلمات کوبلا واسطہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس طرح ان کلمات کو سنا تھا یا تو وہ قرآن تھا یا نہیں ، شق اول پر بعض قرآن کا ضیاع لازم آیا اور شق ثانی پر ادخال غیرِ قرآن قرآن میں لازم آیا، وکلاہما خلف بخلاف مقیس علیہ یعنی قراء ت کذّبوا بالتشدید والتخفیف کے کہ دونوں قرآن ہیں ، چنانچہ دونوں قراء تیں محفوظ ہیں ، سر دست یہ شبہ ہے، اگر بعد میں کوئی اور امر خیال میں آوے گا تو عرض کروں گا، بار بار تکلیف دیتے ہوئے شرم آتی ہے مگر انما شفاء العی السؤال اس مکرر تکلیف کو مقتضی ہوتا ہے۔ فقط۔ الجواب: مخدومی حضرت مولانا مولوی اشرف علی صاحب دام مجدکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، کل یوم یکشنبہ گرامی نامہ عزت بخش ہوا۔ اشکال کے متعلق بندہ کے خیال ناقص میں یہ ہے کہ شق اول اختیار کی جائے کہ مواضع مبحوث فیہا میں یہ کلمات جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے سنے تھے، قرآن تھے لیکن بعد ازاں منسوخ ہوگئے یا بطور تیسیر فرمائے گئے تھے