آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
شرعی قاضی کا تقرر اور اس کی تدبیر بہت سے مسائل میں شرعاً حاکم مسلم کا فیصلہ شرط ہے جس کوقضا ء قاضی سے تعبیر کیاجاتا ہے ،پھر کتاب القضاء میں اس قاضی کے شرائط میں سے اسلام کو کہا ہے گو اس کا تقرر غیر مسلم حکام کی طرف سے ہو ،درمختار اور رداالمحتار میں اس عموم کی تصریح موجود ہے ،جیسے مفقود یعنی بے نشان (لاپتہ) شخص کی زوجہ کے نکاح اول کے فسخ کرنے میں ، یاخیار بلوغ کی بناء پر فسخ کرنے میں اور بھی بہت سے مسائل ہیں ۔ سواگرحکام سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ ہر ضلع یاہر تحصیل میں علماء اسلام کے مشورہ وانتخاب سے ایک عالم متدین ومیتقظ (دیندار وہوشیار) بنام قاضی محض ایسے مقدمات کی سماعت کے لئے مقرر کردیں ،اور اس کی تنخواہ مسلمانوں سے اپنے طورپر وصول کرلی جائے۔ اگر یہ صورت ہوجائے تو مسلمانوں کو ایسے معاملامت میں بہت آسانی ہوجائے ورنہ بڑی تنگی پیش آتی ہے ،مثال کے طورپر احقر نے زن مفقود (لاپتہ شخص کی بیوی کے بارے میں ) ایک جگہ فتویٰ لکھا کہ بعد انقضا ء میعاد مقرر عندالامام مالک ؒ ( یعنی امام مالک ؒ کی مقرر کردہ مدت پوری ہوجانے کے بعد) حکام سے یہ درخواست کرو کہ وہ خاص اس مقدمہ کی سماعت کا اختیار کسی عالم کو دیدیں ، اور وہ عالم یہ کہہ دے کہ میری رائے میں وہ مفقود مرگیا ہے پھر اس کہنے کے بعد وہ عورت عدتِ وفات پوری کرکے نکاح ثانی کرلے ،چنانچہ ان لوگوں نے اطلاع دی کہ ہم نے ضلع کے حاکم سے کہا تھا انہوں نے جواب دیا کہ ہم مذہبی معاملات میں دخل نہیں دیتے تو دیکھئے کیسی تنگی پیش آئی ۔ اور بعض مواقع میں ظاہراً تو تنگی نہیں مگر شرعاً تنگی ہوتی ہے مثلاً خیاربلوغ میں