آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فتویٰ لینے میں ایک عالم ومفتی کو متعین کرنے کی ضرورت ومصلحت مناسب یہ ہے کہ زندہ لوگوں میں سے ایک شخص کو اپنی متبوعیت(پیروی) کے لئے پسند کرلیجئے اور میں یہ بہت فائدہ کی بات بتلاتا ہوں ، تجربہ سے معلوم ہے کہ سلامتی اسی کے اندر ہے ،گواہل انابت(اور مقتدا) متعدد ہوں مگر متبوع ان میں سے ایک کوبنالیاجائے اور اسی کے سبیل (طریقے اور کہنے)کا اتباع کیاجائے۔ پس اب ان میں سے ایک کو ترجیح دینے کا طریقہ معلوم ہونا چاہئے سووہ یہ ہے کہ جس کی انابت زیادہ ہو، یعنی یہ دیکھ لیجئے کہ اس کا علم کیسا ہے ،تقویٰ کی کیا حالت ہے ،پھر دیکھئے کہ نسبت مع اللہ کیسی ہے، اور یہ معلوم ہوگا اس کی صحبت میں رہنے سے، یعنی اگر اس کے پاس بیٹھنے سے دنیا کی محبت کم ہو توسمجھو کہ اس کی نسبت کامل ہے اور وہ متبوع بنانے کے قابل ہے ،اور اگر اپنے اندر اثرمحسوس نہ ہوتواس کے پا س رہنے والوں کودیکھے کہ ان لوگوں کی حالت کیسی ہے؟ اگر ان میں سے اکثر کی حالت اچھی دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ شخص کامل ہے ۔ سلف کی(اگرچہ) یہی حالت تھی کہ کبھی امام ابوحنیفہؒ سے پوچھ لیا کبھی اوزاعیؒ سے ،اور اسی سلف کی حالت دیکھ کر آج بھی لوگوں کو یہ لالچ ہوتا ہے، سوفی نفسہٖ تویہ جائز ہے مگر ایک عارض کی وجہ سے ممنوع ہوگیا ہے ۔ اس کے سمجھنے کے لئے اول ایک مقدمہ سن لیجئے ،وہ یہ کہ حالت ِ غالبہ کا اعتبار ہوتا ہے سوحالت ِ غالبہ کے اعتبار سے آج میں اور اُس وقت میں یہ فرق ہے کہ اس وقت کے لوگوں میں تدیّن (یعنی دین اورتقویٰ)غالب تھا ،ان کا مختلف لوگوں سے پوچھنا یاتواتفاقی طورپر ہوتا تھا اوریا اس لئے کہ جس کے قول میں زیادہ احتیاط ہوگی اس پر عمل کریں گے ،پس اگر تدیّن کی اب بھی وہی حالت ہوتی تو ایک کو خاص کرنے اور اس کی تقلید کرنے کی ضرورت نہ تھی ، مگراب تووہ حالت ہی نہیں رہی اور کیسے رہتی، حدیث میں