آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تکفیر کے مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کی غایت احتیاط ہم نے آج کل یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اپنا جو ایک مسلک قراردے لیا ہے بس وہی اسلام ہے اور وہی ایمان ہے اور جو اس کے خلاف ہو وہ کافر ہے ،یہ بہت سخت بات ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کو دیکھئے صاحب مذہب تھے ،مجتہد تھے انکا منصب یہ تھا کہ ایک مسلک قرار دے لیتے ہم تواس کے اہل نہیں ،مگر ان کی احتیاط دیکھئے۔ ان کے زمانہ میں ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ اس شخص کے حق میں کیافرماتے ہیں جو یہ کہتاہے لاَیَدْخُلُ النَّارَ کَافِرٌ یعنی کو ئی کافر دوزخ میں نہیں جائیگا ، آپ نے شاگردوں سے پوچھا سب نے اس پر کفر کا فتویٰ لگادیا کیوں کہ یہ لفظ صراحۃً خداتعالیٰ کے قول کے خلاف ہے،قرآن شریف میں صاف آیا ہے کہ کفار دوزخ میں جائیں گے اور یہ شخص کہتاہے کہ کوئی کافر دوزخ میں نہ جائے گا تو اس نے حق تعالیٰ کے قول کی تکذیب کی اور اس کا کفر ہونا ظاہر ہے ،امام صاحب نے فرمایا کہ ظاہری معنی تویہی ہیں مگر اس میں کوئی تاویل بھی توہوسکتی ہے یانہیں ؟ لوگوں نے کہا: ایسے صریح لفظ میں کیاتاویل ہوسکتی ہے فرمایا:نہیں ! میرے نزدیک ایک تاویل ہوسکتی ہے اس کایہ کہنا کہ دوزخ میں کوئی کافر نہ جائے گا ۔اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دوزخ میں جاتے وقت کوئی کافر نہ رہے گا،کیونکہ قیامت میں کفار کو حق ظاہر ہوجائے گا اور یہ معلوم ہوجائے گاکہ ہم غلطی پر تھے، جب اپنی غلطی ظاہر ہوجائے گی تو اس وقت ابنیاء کی بھی تصدیق کریں گے اور جنت کی بھی اور نار کی بھی ،تووہ منکرنہ رہے، تو اب یہ کہنا ٹھیک ہوگیا کہ دوزخ میں جوکوئی جائے گا وہ منکر اور کافر نہ ہوگا ، یہ اور بات ہے کہ اس وقت کاایمان نفع نہ دے گا ۔(کیونکہ ) یہ ایمان بالغیب نہیں لہٰذا مقبول نہیں توگواس شخص کا ایمان کارآمد توبے شک نہیں لیکن ایمان تو ہے۔