آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
منصوص جزئیہ کا استخراج و اجتہاد جائز نہیں جن جزئیات کو فقہاء متقدمین مستخرج کرچکے ہیں ان کا استخراج اب جائز نہیں کیونکہ ضرورت نہیں اور جزئیہ منصوصہ کا استخراج جدید اس لیے جائز نہیں کہ حضرات سلف علم میں ، فراست میں ، تقویٰ میں ، زہد میں ، جہد فی الدین میں ، غرض سب باتوں میں ہم سے بڑھے ہوئے تھے تو تعارض کے وقت ان کا اجتہاد مقدم ہوگا۔ البتہ جن جزئیات کا وقوع اس زمانے میں نہیں ہوا تھا اور فقہاء نے اس کی تصریح نہیں فرمائی ایسے جزئیات کا انطباق ان کے قواعد مدوّنہ پر جائز ہے اور ایسے لوگ ہر زمانے میں موجود رہتے ہیں ورنہ شریعت کو کامل نہیں کہہ سکیں گے۔۱؎جدید مسائل کو حل کرنے کا حق دار کون ہے؟ مجتہد اور متدین علماء اور اجتہاد سے میری مراد یہ ہے کہ وہ فقہاء کے اقوال کو واقعات پر صحیح طور پر منطبق کرسکتا ہو اور یہ اجتہاد ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ قیامت تک رہے گا۔اور تدین سے مراد یہ ہے کہ اغراض کا تابع نہ ہو کہ کھینچ تان کرنا جائز کو حدّ جواز میں لائے ۔۲؎مسائل کے حل کرنے میں امت کی سہولت کا خیال رکھنا یہ وہ وقت ہے کہ آج کل مشتبہ چیز کو بھی حلال کہا جاتا ہے نہ کہ حلال کو بھی اس میں شبہات نکال کر حرام کردیا جائے بس یہ معیار یاد رکھو کہ جس کو فقہی فتویٰ حلال کہہ دے بس وہ حلال ہے۔۳؎ اسی واسطے میں کہتا ہوں کہ فتویٰ میں تنگی نہ کرنا چاہئے جائز تک رکھئے تو غنیمت ہے، اولیٰ پر تو کہاں پابندی ہوسکتی ہے اختلافی مسئلہ میں اگر ابتلائے عام ہو تو اس کو بھی جائز بتلائیے، مگر یہ معاملات میں ہے نہ کہ شطرنج وغیرہ میں کیونکہ معاملات میں تو تنگی ------------------------------ ۱؎ دعوات عبدیت ص:۱۰۳-۱۰۴۔۲؎ انفاس عیسی ٰ ص۱۸۰ ۳؎ التبلیغ ۱۰/۶۷