آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
دلائل و حوالے لکھنا چاہئے یا نہیں ؟ فرمایا کہ سمجھ دار اور تحقیق پسند لوگوں سے دلیل بیان کرنا اور تشفی کردینا مناسب ہے واجب یہ بھی نہیں الا آنکہ معلم تنخواہ اسی کی پاتا ہو۔۱؎ آج کل کوڑ مغزوں کے لیے نقل ہی کی زیادہ ضرورت ہے درایت کا آج کل زمانہ نہیں ۔۲؎ صاحب ہدایہ حدیث کے حافظ تھے اس لیے ان کو حدیث کے حوالہ کی ضرورت نہ تھی اور اس وقت اتنا ہی کافی تھا کہ حدیث میں آیا ہے مگر اس زمانے میں چونکہ تدین نہیں رہا (اس لیے آج کل) حوالہ میں صفحہ و سطر سب کچھ لکھنا چاہئے تاکہ دوسرا دیکھ سکے۔۳؎عوام کے سامنے ایسے دقیق مضامین اور دلائل بیان کرنا جو ان کی فہم سے بالا تر ہو ں ممنوع ہے حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں کے سامنے ایسی بات کرو جس کو وہ سمجھیں ، کیا(سمجھ سے باہر باتیں کرکے) تم اس کو پسند کرتے ہو کہ خدا ورسول کی تکذیب کی جاوے؟(یعنی جب وہ بات قرآ ن وحدیث سے صراحتًہ یااستدلالاً ثابت ہے توخداو رسول کی کہی ہوئی ہوئی، اورچونکہ سمجھ سے باہر ہے اس لئے عوام اس کی تکذیب کریں گے پس تم سبب ہوئے خداورسول کی تکذیب کے اور چونکہ ضروریات دین میں سے کوئی امر ایسا نہیں ہے لہٰذا یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس میں بعض دین کا کتمان لازم آتا ہے ۔ (روایت کیااس کو بخاری نے ) حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب تم کسی قوم سے ایسی بات کروگے کہ ------------------------------ ۱؎ ملفوظات اشرفیہ ص:۳۳۹۔ ۲؎ الافاضات ۲؍۴۲۴۔ ۳؎ کلمۃ الحق ص:۵۱۔