آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اور کیسی رحمت ہے، لوگوں کا تو یہ گمان ہوگیا ہے کہ شریعت میں تو سوائے لایجوز کے اور کچھ ہے ہی نہیں ، حالانکہ شریعت میں لایجوز بہت کم ہے، یجوز کثرت سے ہے، جو فقہ سے واقف ہے وہ اس کو خوب جانتا ہے وسعت دینے میں ایک تو شریعت سے محبت ہوگی دوسرے جو اس سے منتفع ہوگا آرام سے رہے گا اس سے حق تعالیٰ کی محبت غالب ہوگی۔۱؎امت کو تنگی سے بچانے کے لئے دوسرے مذہب کو اختیارکرنا فرمایا: مردوں کی غفلت اور ظلم سے عاجز آکر جو عورتیں کثرت سے مرتد ہورہی ہیں اس کے متعلق ایک رسالہ ترتیب دیا ہے جس کانام الحیلۃ الناجزۃ ہے ۔۔۔۔ اس رسالہ کے متعلق بھی اعتراض کیاجاتا ہے کہ اس رسالہ کا حاصل تو یہ ہوا کہ حنفیت کو چھوڑدو، منشاء اس اعتراض کا یہ ہے کہ اس میں بعض صورتوں میں دوسرے ائمہ کے مذاہب پر بھی فتویٰ دیا گیا ہے، میں کہتاہوں کہ حنفیت نہ چھوٹے چاہے اسلام چھوٹ جائے ؟جب اسلام اور ایمان ہی جاتا رہا تو وہ کیا ہوگا؟ حنفی یاشافعی یامالکی یاحنبلی،مقلد یاغیر مقلد ؟ دیکھئے کیا عقلیں ہیں ،اگر یہ فتویٰ لیا جائے کہ ایک شخص یامرتد ہوتا ہے یا غیر مقلدی اختیارکرتا ہے توشرعاً کیا حکم ہے؟ تو اس پرکیا فتویٰ دیتے ہو ؟۲؎دوسرے مذہب کو اختیارکرنا کب جائز ہے؟ (درمختار اور شامی کی عبارت۔۔۔۔) ان روایات سے معلوم ہوا کہ دوسرے مجتہد کے قول پر عمل کرنا یا تواس وقت جائز ہے جب اپنے مذہب کے مکروہ کا ارتکاب لازم نہ آئے ، اوریاموضع ضرورت میں جائز ہے ۔۔اور ضرورت کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر کوئی ضرر لاحق ہونے لگے اور ضرر سے مراد حرج اور تنگی اور مشقت ہے۔ (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے)(امدادالفتاویٰ ص۶۴۰ج۱ سوال نمبر ۵۶۲) ------------------------------ ۱؎ التبلیغ ص۹۷ج۲۱۵؎ملفوظات حکیم الامت ص۱۸ ج۳قسط ۱ملفوظ نمبر۲۲و ص۱۷۷ ج۳قسط ۲ملفوظ نمبر۲۰۸