آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
امر اول: شرکت بعض مجالس کیالحمدﷲ ! مجھ کو نہ غلو و افراط ہے، نہ اس کو موجب قربت سمجھتا ہوں مگر توسع کسی قدر ضرور ہے اور منشاء اس توسع کا حضرت قبلہ و کعبہ کا قول وفعل ہے مگر اس کو حجت شرعیہ نہیں سمجھتا، بلکہ بعد ارشاد اعلیٰ حضرت کے خود بھی میں نے جہاں تک غور کیا اپنے فہم ناقص کے موافق یوں سمجھ میں آیا کہ اصل عمل تو محل کلام نہیں ہے البتہ تقلیدات و تخصیصات بلا شبہ محدَث (بدعت) ہیں سو اس کی نسبت یوں خیال میں آیا کہ ان تخصیصات کو اگر قربت و عبادت مقصودہ سمجھا جائے تو بلا شک بدعت ہیں اور اگر محض امور عادیہ مبنی بر مصالح سمجھاجائے تو بدعت نہیں ، بلکہ مباح ہیں گو مباح کبھی بوجہ واسطہ عبادت بن جانے کے لغیرہ عبادت سمجھ لیا جائے۔ چنانچہ بہت سے مباحات کی یہی شان ہے اور میرے فہم ناقص میں تخصیصات طرق اذکارو اشغال اسی قبیل سے معلوم ہوئیں جو کہ اہل حق میں بلا نکیر جاری ہیں کوئی معتدبہ فرق تامل سے بھی معلوم نہ ہوا، ہاں ان تخصیصات کو کوئی مقصود بالذات سمجھنے لگے تو ان کے بدعت ہونے میں بھی کلام نہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ایک اور خیال بھی آیا کہ گو اس صورت میں یہ بدعت اعتقادی نہ ہوگا مگر اس کا اہتمام والتزام بدعت عملی تو ہوگا لیکن خصوصیات طرق ذکر اس میں بھی ہم پلہ معلوم ہوئے۔ تیسرا اور خیال ہوا کہ اگر ایسے فہیم آدمی کے حق میں بدعت نہ ہوگا مگر چونکہ عوام کو اس سے شبہ اس کی ضرورت یا قربت کا ہوتا ہے ان کے حفظ عقیدہ کے لیے یہ واجب الاجتناب ہوگا مگر اس کے ساتھ ہی یہ احتمال ان تخصیصات اذکار میں بھی نظر آیا کہ اکثر عوام اس طریق کی خصوصیات کو بہت ضروری سمجھتے ہیں اور علماً وعملاً ان کا پورا التزام کرتے ہیں مگر ان کا خیال خواص کے فعل میں نہیں سمجھا جاتا۔