آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کیونکہ اگر یہ دیوار مسجد کی ہوتی تو اس میں تین در ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی، پھر سہ درخود شہادت دے رہے ہیں کہ اس دیوار کو جس میں در ہیں مسجد سے کوئی علاقہ نہیں اور اس کے ساتھ جب یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس دیوار کا سلسلہ بلا انقطاع شرقی جانب میں دور تک چلا گیا ہے جو یقینا خارج مسجد ہے تو یہ حصہ بھی داخل مسجد نہیں ہوسکتا، ماوراء اس کے میں نے یہ عرض کیا تھا کہ یہ دیوار مسجد کے ساتھ تعمیر ہوئی ہے، یا بعد میں ؟ پس اگر یہ دیوار اب فرش مسجد پر بنائی گئی ہو تو بھی داخل نہیں ہوسکتی، ہاں اگر یہ امر ثابت ہوجائے کہ اول یہ دیوار لب فرشِ مسجد پر احاطۂ مسجد کے لیے قائم کی گئی تھی اور بعد ازاں اس میں در بنائے گئے تو البتہ یہ دیوار دیوارِ مسجد ہوسکتی، لیکن اس صورت میں بھی شرعاً یہ امر ضروری ہوگا کہ اس کے در بند کئے جائیں اور اس کو سہ دری کی دیوار نہ قرار دی جائے کہ جو خارج از مسجد ہے۔ بالجملہ حضرت غور فرمائیں ، یہ کسی طرح معقول نہیں ہے کہ دیوار جز و مسجد ہے اور در حقیقت یہ اکابر کی غلطی نہیں ہے انہوں نے اس دیوار کو خارج خیال فرماکر اس پر کڑیاں رکھی ہیں ، اور یہ خیال ان کا صحیح تھا کہ یہ دیوار خارج مسجد ہے کیونکہ خارجی سہ دری کی ہی دیوار ہے، اس پر سائبان کا ڈالنا یہی غلطی ہے، دوسرا مقدمہ جو تحریر فرمایا اس میں کلام کی چنداں ضرورت نہیں اور نہ اس سے اشکال رفع ہوسکے۔ فقط والسلام (خلیل احمد)حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب کا جواب (بعد آداب والقاب کے) دیوار کو جو میں نے جزو مسجد لکھا وہ اس بنا پر کہ وہ فرش مسجد پر بنی ہوئی ہے جیسا کہ حدود متقابلہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے گو بعد میں بنائی گئی، چنانچہ ایک بار میں نے حضرت گنگوہیؒ کی خدمت میں بھی یہی شبہ پیش