آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اہل علم و ارباب فتاوی کو کسی کے معاملہ میں نہیں پڑنا چاہئے ہرکام کے لیے خاص اصول ہیں حتی کہ علماء نے خود تبلیغ و افتاء کے لیے بھی چند شرائط بیان کئے ہیں چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہ بھی ہے کہ جس کے متعلق افتاء و تبلیغ و تعلیم و تربیت کا کام سپرد ہو وہ کسی کی گواہی نہ دے۔ اورایک میں نے اضافہ کیا ہے تجربہ کی بناء پر کہ جس کے متعلق یہ کام ہوں وہ کسی کے معاملہ میں حَکَمْ یعنی فیصلہ کنندہ بھی نہ بنے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ ایک جماعت میں شمار کرلیا جائے گا اور دوسری جگہ کے مسلمان اس کے فیوض وبرکات سے محروم ہوجائیں گے۔ مولویوں کو نہیں چاہئے کہ ایسے قصوں اور جھگڑوں میں پڑیں ان کو تویہ چاہئے کہ وہ دو جگہ رہیں مسجد اور گھر، ایسے قصوں میں پڑنے سے اپنے اصلی کام سے رہ جاتے ہیں ۔ امام محمد سے منقول ہے کہ علماء کو کسی مقدمہ میں شہادت نہیں دینی چاہئے۔ علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ علماء کو کسی کی دعوت نہیں کھانا چاہئے یہ سب اس لیے کہ ان سب چیزوں سے تعلقات یا خصومات پیدا ہوتے ہیں اور علماء کے ساتھ سب مسلمانوں کا یکساں تعلق ہونا چاہئے۔۱؎فریقین کی رضامندی کے باوجود اہل علم و ارباب افتاء کو کسی کے معاملہ میں نہیں پڑنا چاہئے میں کسی کے فیصلہ وغیرہ میں نہیں پڑتا، اگر دونوں فریق جمع بھی ہوکر آتے ہیں تب بھی فیصلہ کرنے سے انکار کردیتا ہوں ، بات یہ ہے کہ میرا تعلق لوگوں سے تعلیم و تربیت کا ہے میں اگر ایسے قصوں میں پڑوں گا تو میرے متعلق فریق بندی کا شبہ پیدا ہوجائے گا ------------------------------ ۱؎ الافاضات الیومیہ ۱۹۸ج۴۔