آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا جواب معلوم ہوتا ہے کہ کاتبِ خط نے میرے اس فتوے میں جو مسلم لیگ کے متعلق ہے جس کالقب’’تنظیم المسلمین‘‘ ہے غور نہیں کیا جس کی وجہ سے بلا دلیل بلکہ خلاف ِدلیل اس کو مسلم لیگ کی حمایتِ مطلقہ سمجھ لیا حالانکہ اس میں ذیل کی قیود کی تصریح ہے ۔۔۔۔ یہ ہے واقعہ،مگر میں اب بھی اس پر آمادہ ہوں کہ اگر علماء سے اس کارروائی کے خلاف شرع ہونے کا فتویٰ حاصل کرکے مجھ کو اطلاع کردی جاوے میں اس میں انصاف اور تدین سے غورکرکے شرح صدر کے بعد اپنے فتویٰ سے رجوع کرلوں گاجیسا کہ میراہمیشہ سے معمول رہا ہے، رسالہ ترجیح الراجح کا سلسلہ اس کی دلیل ہے اور یہی کلام ہے کانگریس کی حمایت میں جس کو میں اب تک بحالت موجودہ اسلام اور اہل اسلام کے لئے سخت مضر سمجھتاہوں لیکن اگر دلیل شرعی اس کے خلاف واضح ہوجائے میں اپنی رائے بدلنے کے لئے تیار ہوں اوریہی صحیح طریقہ بھی ہے کسی کی غلطی پر مطلع کرنے کا ،باقی اگر تخویف سے کسی نے اپنے ضمیر کے خلاف کوئی رائے بھی ظاہر کردی یہ عقلاً بھی مفید نہیں ہوسکتا کیونکہ ہرشخص سمجھے گا کہ یہ رائے دل سے نہیں تو اس سے مقصودبھی حاصل نہ ہوگا ، اس لئے یہ طریقہ محض عبث اور عقل وشرع دونوں کے خلاف ہے ۔ یہ سب تنقیح اس وقت ہے جب حقیقت کو سمجھنا اور حق کاا تباع کرنا مقصود ہو اور اگر یہ نہیں تو پھر بجز قیامت کے دن کے اس کے فیصلہ کی کوئی صورت نہیں ، باقی میں اس پر قادر نہیں کہ محض مخلوق کو راضی کرنے کے لئے حق تعالیٰ کو ناراض کردوں اور دنیا کے متاع قلیل کے لئے آخرت کے نفع وضرر کو نظرانداز کردوں والسلام واللہ الہا دی الیٰ سواء السبیل۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ افادات اشرفیہ درمسائل سیاسیہ ص۸۴،۸۷