آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کا مکتوب بہ والا خدمت بابرکت قدوۃ العرفاء زبدۃ الفضلاء حضرت مولانا رشید احمد صاحب دامت برکاتہم تسلیم بصد تعظیم قبول باد۔ والا نامہ شرف صدور لایا معزز فرمایا: حضرت عالی کے ارشادات سے اس عمل کے جو مفاسد علمیہ و عملیہ عوام میں غالب ہیں پیش نظر ہوگئے اور ارادہ کرلیا کہ ہرگز ایسی مجالس میں شرکت نہ ہوگی، اب یہاں کی حالت عرض کرکے حکم کا انتظار ہے۔ الحمد للہ کہ میں نہ یہاں کسی کا محکوم ہوں نہ کسی سے مجبور مگر پوری مخالفت کرکے قیام دشوار ہے، گو اب بھی یہاں کے بعض علماء مجھ کو وہابی کہتے ہیں اور بعض بیرونی علماء بھی یہاں آکر لوگوں کو سمجھا گئے کہ یہ شخص وہابی ہے اس کے دھوکہ میں مت آنا، مگر چونکہ من وجہ عوام سے موافقت عمل تھی اس لیے کسی کی بات نہ چلی، اب چونکہ شرکت عملی کا بھی ارادہ نہیں تو دقتیں ضرور پیش آئیں گی، اب تین صورتیں محتمل ہیں ایک یہ کہ ایسے مواقع پر کوئی حیلہ کردیا کروں گا مگر اس کا ہمیشہ چلنا محال ہے ، دوسرے یہ کہ صاف مخالفت کی جائے مگر اس میں نہایت شور وفتنہ ہے جس کی حد نہیں دنیوی مضرت یہ ہے کہ اس میں جہلاء عوام سے ایذاء رسانی کا اندیشہ ہے۔ دینی مضرت یہ کہ اب تک جو ان لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح کی گئی سب بے اثر و بے وقعت ہوجائے گی، اس بدگمانی میں کہ یہ شخص تو وہابی ہے، اب تک پوشیدہ رہا، تیسری صورت یہ کہ یہاں کا تعلق ملازمت ترک کردیا جائے اور میں تو اس صورت کو بلا انتظار حکم عالی اختیار کرلیتا مگر دو امر کا خیال پیدا ہوا ایک یہ کہ خود سبب معیشت کو ترک کرنا اکثر موجب ابتلاء و امتحان ہوتا ہے کہ خدا جانے اس کا تحمل ہو یا نہ ہو اور اموال موروثہ کا تیا، پانچا پہلے سے کرچکا ہوں اور دوسری جگہ تعلق ملازمت سے اعلی حضرت منع فرماچکے ہیں اور میرا بھی دل نہیں چاہتا۔