آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فصل(۲) ائمہ مجتہدین اور علماء کے اختلافی مسائل پر اعتراض کرنا دراصل اللہ ورسول پر اعتراض کرنا ہے بعض جہلاء علماء پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے یہاں ہر بات میں اختلاف ہے اب ہم کس کا اتباع کریں ؟ کس کو سچاسمجھیں ،کس کو جھوٹا سمجھیں ؟ سو (ماقبل) میں جب اس اختلاف کا قرآن وحدیث واقوال اکابرامت سے محمود ہونا ثابت ہوچکا ہے تو اس اختلاف پر اعتراض کرنا حق تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر امت پر اعتراض کرنا ہے۔ اس اختلاف کا حکم یہ ہے کہ یہ باتفاق واجماعِ علماء امت محمود ومقبول ہے اور ان احادیث واقوال اکابر کا یہی محمل ہے: عن عمر بن الخطاب ؓ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول سألت ربی عن اختلاف اصحابی من بعدی فاوحی الی یامحمد أن اصحابک عند ی بمنزلۃ النجوم فی السماء بعضہا أقوی من بعض ولِکل نور فمن اخذبشیء مماہم علیہ من اختلافہم فہو عندی علی ہدی ۔ قال وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحابی کالنجوم فبایہم اقتدیتم اہتدیتم (رواہ رزین ،مشکوٰۃ باب مناقب الصحابۃ) فی المقاصد الحسنۃ من المدخل للبیہقی من حدیث سفیان عن أفلح بن حمید عن القاسم بن محمد قال: اختلاف اصحاب محمد