آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
لب ولہجہ کچھ معارضانہ ہوتا ہے،اس لیے بھی اس مجیب کی زبان سے دوسرے مجیب کی نسبت یا اس کے جواب کی نسبت ناملائم (غیر مناسب) لفظ نکل جاتاہے پھر یہی ناقل یا دوسرا (شخص) اس مجیب تک اس کو پہنچادیتا ہے پھر وہ کچھ کہہ دیتا ہے، اس کی خبر اس پہلے تک پہنچتی ہے، اور بعض دفعہ بلکہ اکثر ان منقولات (نقل کی ہوئی بات) میں بھی لفظی یا معنوی تغیر و تبدل کردیا جاتا ہے اور اس طور پر باہم ایک فساد عظیم ان میں برپا ہوجاتاہے۔ ۱؎ایک خط میں تین سے زائد سوال نہ کرنا چاہئے ایک صاحب نے بہت سے سوالات ایک خط میں لکھ کر بھیجے، یہاں سے یہ جواب گیا کہ ایک خط میں دو تین سوال سے زیادہ نہ ہونا چاہئے کیونکہ اتنی فرصت نہیں ہے۔۲؎ایک خط میں اس قدرسوالات کی کثرت نہ کرنا چاہئے ایک صاحب کا کارڈ آیا تھا اس میں سات سوالات کئے تھے میں نے لکھ دیا کہ تمہیں رحم نہیں آیا، خود لفافہ میں بھی دوسوال سے زیادہ نہ ہو ں نہ کہ کارڈ میں سات سوالات،اب بتلائیے کہاں تک خوش اخلاق بن سکتا ہوں ، ایک کارڈ میں سات سوالات کاجواب کس طرح لکھ دیتا ،لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ اور کوئی کام نہ ہوگا اس لئے اتنے سوال بھیج دیتے ہیں ،پھر یہ سب سوالات اسی وقت تک ہیں کہ مفت جواب مل جاتا ہے ،اگر فی سوال قلیل فیس بھی مقرر کردی جائے تو امید ہے کہ ا یک سوال بھی نہ آئے، ایک مولوی صاحب فتویٰ کی فیس لیتے ہیں اوروہ اس لینے کو چھپاتے بھی نہیں ، اعلان کرکے لیتے ہیں اور صاحب تجارت کا تو اعلان ہونا ہی چاہئے ،اور دیوبند میں کثرت سے فتوے آتے ہیں ،ایک پیسہ بھی نہیں لیاجاتا اور گولینا جائز ہے مگر اس طرز میں یعنی لینے میں آزادی نہیں رہ سکتی اس لئے یہ اچھا طرز نہیں ۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ اصلاح انقلاب ص۳۱ ۲؎ حسن العزیز ۱؍۷۲۔ ۳؎ ملفوظات حکیم الامت ص۴۷۵ ج۱قسط ۴