آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اہل علم وارباب افتاء کو چاہئے کہ تہمت اور بدنامی کے موقعوں سے بچیں اور تعلقات دنیویہ میں زیادہ مشغول نہ ہوں علماء کے لئے مناسب یہ ہے کہ تعلقات دنیویہ میں زیادہ مشغول نہ ہوں اور یہ بات شاید اول وہلہ میں عقلاء کی سمجھ میں نہ آئے مگر میں اس کو سمجھائے دیتاہوں ، کیونکہ آج کل عقل کی بہت پرستش ہوتی ہے ، جب تک کہ کوئی بات ان کے عقل میں نہ آئے ، اس وقت تک اس کو قبول نہیں کرتے اور اس قسم کی باتوں کو آج کل تنزل کی تعلیم کہا جاتا ہے مگر الحمدللہ میں علماء کو کہہ رہاہوں اور وہ اس کو تنزل نہ کہیں گے۔ توبات یہ ہے کہ جو علماء دنیا کے کاروبارکرتے ہیں ان کی بابت معلوم ہوا ہے کہ ان معاملات کے متعلق جب وہ کوئی فتویٰ بیان کرتے ہیں تولوگ اس کی وقعت نہیں کرتے ،چنانچہ اسی کی بناء پرعوام کی زبان زد ہے کہ مولوی اپنے مطلب کے فتوے نکال لیتے ہیں ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ دنیوی جھگڑے ہیں ، اس وجہ سے لوگوں کو ان پر اعتماد نہیں ،اور یہ جھگڑے نہ ہوں تو ان کی سختی احتیاط پر محمول ہوگی اور نرمی واقفیت زمانہ پر محمول ہوگی، غرض ہرحال میں وہ محمود ہوں گے اور گویہ محمود ہونا مقصود نہیں لیکن اگر ایسا نہ ہوتو ان سے لوگوں کو فائدہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر مریض کو طبیب پر اعتماد نہ ہو تومریض گیاگذرا،پس طبیب کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اختیار سے کوئی بات ایسی نہ کرے کہ مریض کا اس پر سے اعتماد جاتارہے،اورمریض اس سے بدگمان ہوجائے اور یہی معنی ہیں اتَّقُوْا مَوَاضِعَ التُّہَم کے(یعنی تہمت کے موقعوں سے بچو) ۔ اس کو پہلے مضمون کے متعارض نہ سمجھئے کہ پہلے کہا تھا کہ کسی کا ہماری طرف سے گمان بدہو تو ہوا کرے، کیونکہ مواضع التہم (تہمت کی جگہیں ) کے بچنے کے امر میں یہ