آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
قادر کے نزدیک قوت دلیل کا اعتبار ہوگا جومسئلہ ہمارے اصحاب میں مختلف فیہ ہو اس کی قواعد ترجیح میں بعدتطبیق بین الاقوال المختلفۃ یہ فیصلہ ہے کہ جو شخص قوتِ دلیل کو سمجھ سکتا ہے ،وہ اس قول کو لے جو دلیلاً اقویٰ ہو۔ فی مقدمۃ الدرالمختار رسم المفتی۔۔۔۔ ان المجتہد یعنی من کان اہلا للنظر فی الدلیل یتبع من الأقوال ماکان أقویٰ دلیلا والا اتبع الترتیب السابق (یعنی یفتی بقول الامام علی الاطلاق ثم بقول الثانی ثم بقول الثالث ثم بقول زفروالحسن بن زیاد )وعن ہٰذا نراہم قد یرجحون قول بعض أصحابہٖ علی قولہٖ کمارجحوا قول زفر وحدہ فی سبع عشـرۃ مسئلۃ فتتبع مارجحوہ لانہم أھل النظر فی الدلیل۔۱؎ متبحرعالم عالم اگر کسی مسئلہ کو خلاف دلیل سمجھے تو اس کا سمجھنا معتبر ہوگا،ایسے حضرات کا فہم معتبر ہوسکتا ہے جیسے حضرت مولانا گنگوہیؒ حضرت مولانا قاسم صاحبؒ ۲؎جدید مسائل کا قواعد کلیہ سے جواب دینے کا طریقہ فرمایا کہ ایک صاحب کاخط آیا ہے کہ انگریزی پڑھنے کے لیے وقف کرنے پر ثواب ہوگا یا نہیں ؟میں نے جواب میں لکھ دیا کہ انگریزی پڑھنے سے کیا نیت ہے؟ اور انگریزی پڑھنے کے قواعد کیاہیں ؟ اور کورس کیا ہے؟ اور اس کی ضرورت کیا ہے؟ اب جیسا جواب دیں گے حکم اسی پر مرتب ہوگا۔ قواعد سے اگر جواب لکھتا ہوں تو اس میں یہ احتیاط کرتا ہوں کہ یہ لکھ دیتا ہوں کہ قواعد سے یہ جواب لکھا ہے جزئیہ نہیں ملا۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ امدادالفتاویٰ ۳/۱۵۶ ،۲؎ حسن العزیز۴۱۲ ۳؎ اشرف المعمولات ص:۳۲۔