آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فصل (۴) غیر ضروری اور فضول سوال کا جواب ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ ایک عورت جارہی تھی اس کے ساتھ اس کا شوہر بھی تھا اور اس کا بھائی بھی، راستہ میں کسی راہزن نے ان دونوں کو قتل کردیا، اتفاقاً اس طرف سے ایک فقیر کا گذر ہوا اس عورت کی التجا سے فقیر نے کہا کہ ان دونوں کا سر دھڑ سے ملاکر رکھ دے، میں دعاکروں گا، عورت نے غلطی سے بھائی کا سر شوہر کے دھڑ میں اور شوہر کا سر بھائی کے دھڑ میں جوڑ دیا، فقیر نے دعا کی تو دونوں زندہ ہوگئے اس صورت میں عورت کس کو ملے گی؟ میں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور سوال کرنے والے کو زجر و توبیخ کی کیوں کہ ایسے سوال بالکل لغو اور بے ہودہ ہیں ایسے سوالات کا کوئی جواب نہ دینا چاہئے لوگوں کو چاہئے کہ اپنے کام کی باتیں دریافت کیا کریں ایسے فضول سوالات سے تضییع اوقات نہ کیا کریں ۔۱؎ کسی نے لکھا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا انتقال پیشتر ہوا ہے یا حضرت حوا کا اور دونوں کے بیچ میں انتقال کے کس قدر زمانہ گزرا ہے؟ میں نے اس کا جواب دیا کہ ’’میں نے کہیں نہیں دیکھا‘‘۔۲؎ ایک خط میں آیا تھا کہ معلوم ہوا ہے کہ بھوک کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شکم مبارک پر پتھر باندھا ہے، کتب سیر کے حوالے بھی دئیے ہیں پوچھا تھا کہ کیا یہ صحیح ہے؟ میں نے لکھا ہے کہ اگر صحیح ہے تو تم کیا کرو گے مطلب یہ ہے کہ غیر ضروری ------------------------------ ۱؎ دعوات عبدیت ۴؍۴۶۔ ۲؎ دعوات عبدیت ۱۹؍۸۸۔