آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
شخص ہے جو دعویٰ کرے کہ میں خداکو جانتاہوں ،یہی تووہ مسئلہ ہے جس میں تمام فلاسفر گمراہ ہوگئے اور ہزار وں اب بھی گمراہ ہیں ، جو حق پر ہیں وہ بھی اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ کو اجمالاً کچھ پہنچانتے ہیں ،باقی جس کا نام علم اور جاننا اور پہچاننا ہے اس کی توخیرصلّاہے یہی بات تو وہ شخص بھی کہتا ہے کہ میں خدا کو کیا جانوں ، میں تو تم کو جانوں ،یعنی خداکا راستہ بتلانے والے کو ، تو وہ کیا بے جاکہتا ہے پھر بے چارے کو کیوں کافربناتے ہو، دیکھئے مولانا نے ایسے سخت کلمہ کو کیسے ہلکا کردیا ، ایک بعید تاویل کرکے اس کوبچالیا۔۱؎حضرت تھانویؒ کا معمول میرے پاس بہت فتوے آتے ہیں لوگ پوچھتے ہیں کہ فلاں شخص نے یہ کلمہ کہا ہے اس میں کفر عائد ہوا یا نہیں ،میں اکثر یہ جواب دے دیتا ہوں کہ یہ کلمہ گستاخی کا ہے یہ شخص بہت بے ادب ہے اس نے بڑاگناہ کیا مگر کفر نہیں ، کفر کا نام لیتے ہوئے ڈرمعلوم ہوتاہے کیو نکہ کسی کو کا فر کہنا حق تعالیٰ کی رحمت سے بالکل نکال دینا ہے اور حق تعالیٰ کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔۲تکفیر کے مسئلہ میں اس درجہ احتیاط کی وجہ کفر بہت بڑا حکم ہے کسی کے لئے کفر ثابت کردینے کے یہی معنی ہیں کہ اس کو ابدالآباد کے لئے رحمت خداوندی سے مایوس اور محروم بنادیا جائے اور ہمیشہ ہمیش کی تکالیف اور عذاب اس کے لئے ثابت ہوجائیں ، کسی کو کافر کہنا حق تعالیٰ کی رحمت سے بالکل نکال دینا ہے اور حق تعالیٰ کی رحمت اس قدروسیع ہے کہ اس کااندازہ نہیں ہوسکتا۔ اس کا پتہ اس حدیث سے چلتا ہے ،بڑی عبرت کی حدیث ہے او روہ ------------------------------ ۱؎ الاسلام الحقیقی ص۴۵۶ المرابطہ ص۸۴ ۲؎ الاسلام الحقیقی ص۴۵۸