آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تحقیق سے کیا فائدہ؟ ایک شخص ان کے پاس آیا اور سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین شریفین کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے اس سائل سے دریافت کیا کہ تم سے موت کے وقت یا قبر میں یا حشر میں یا میزان پر یہ سوال ہوگا؟ عرض کیا کہ نہیں ؟ پھر کہا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ قیامت میں نماز کی اول پوچھ ہوگی عرض کیا کہ جی معلوم ہے کہا کہ اچھا بتلاؤ نماز میں فرائض، واجبات ، سنن، مستحبات کیا کیا ہیں ؟ بے چارہ گم ہوگیا ، فرمایا کہ جاؤ کام کی باتوں میں وقت صر ف کیا کرتے ہیں غیر ضروری سوال نہ کرنا چاہئے کم سے کم علماء کو تو چاہئے کہ سائل کے تابع نہ بنیں ۔۱؎ حضرت والا کے پاس ایک سوال آیا کہ اوج بن عنق اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کا عصا کتنے لمبے تھے؟ جواب لکھا کہ جیسے یہ سوال غیر ضروری ہے اسی طرح جواب کی بھی ضرورت نہیں ،کسی لایعنی (فضول) سوال کا میں یہی جواب دیا کرتا ہوں کہ مجھے فرصت نہیں کسی کو کہہ دیا کہ اور عالم سے پوچھ لو کسی کا جواب بھی نہیں دیتا اور اگر جواب کے لیے ٹکٹ بھیجا ہو تو اس کو واپس کردیتا ہوں کہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ تحقیق منظور نہیں ہے لہٰذا تضییع وقت سمجھ کر سکوت کیا جاتا ہے، کسی سے ایک دفعہ اصل مسئلہ کی تقریر کرکے فرمایا کہ اس سے زیادہ مجھ کو نہیں معلوم! آپ کی تشفی مجھ سے نہیں ہوسکتی۔ ۲؎سوال مختصر میں جواب بھی مختصر حکیم الامت حضرت تھانویؒ ایک سوال کا جواب دینے سے قبل تحریر فرماتے ہیں : طرزکلام سائل سے مفہوم ہوتا ہے کہ سائل کی طبیعت اختصار پسند ہے لہٰذا ہم بھی بحکم خیر الکلام ماقل ودل نہایت اختصار سے جواب دیتے ہیں ۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات الیومیہ ص۱۰ج۲ ۲؎ ملفوظات کمالات اشرفیہ ص:۳۳۹۔ ۳؎ امدادالفتاویٰ ج۶ص۱۳۶