آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
جاتے ہیں اور اصل واقعہ ملتبس ہوجاتا ہے۔۱؎فتاویٰ نویسی سے متعلق حضرت تھانویؒ کے اصول وضوابط ۱- ایک خط میں اتنے سوالات نہ بھردے کہ جواب دینے والے پر بار ہوجائے چار پانچ سوال بھی بہت ہیں ، بقیہ جواب آنے کے بعد پھر بھیج دے۔۲؎ ۲- اگر جوابی کارڈ پر سوالات لکھیں تو اس کی ایک نقل اپنے پاس رکھیں تاکہ جواب کی تطبیق کرسکیں (یعنی ملا کر دیکھ سکیں )۔ ۳- جس مسئلہ میں شرح صدر نہ ہو یا فرصت کی کمی کی وجہ سے یا کتابیں موجود نہ ہونے کی وجہ سے روایات نہ مل سکیں ، تو وہ بے جواب واپس کردیا جاتا ہے۔ ۴- دلیل لکھنے کی درخواست نہ کریں ، اس واسطہ کہ مقلد کو دلیل پوچھنے کا منصب نہیں ، اور جو مسئلہ دلیل لکھنے کے قابل ہوتا ہے اس میں از خود دلیل لکھی جاتی ہے۔ ۵- فرائض (میراث) کے سوالات مجمل نہ لکھیں ، اموات کی ترتیب ہر میت کو مع اس کے ورثہ کے لکھیں ۔ ۶- فرائض (میراث )کا مسئلہ اگر طویل ہوا تو چونکہ حساب کی ضرورت ہوتی ہے اس واسطے ایک محاسب سے اجرت پر کام لیا جاتا ہے۔۳؎مُہر لگانے کے سلسلہ میں حضرت تھانویؒ کامعمول ایک مستفتی جواب لے کر چلاگیا اور واپس آکر حضرت تھانوی سے کہا کہ:مولوی صاحب میں تو بہت دور نکل گیا تھا وہاں جاکر نظر پڑی کہ آپ نے اس فتوے پر مہر تو لگائی ہی نہیں ، میں نے اس سے کہا کہ مہر تو بھائی میں لگایا نہیں کرتا۔۴؎ ------------------------------ ۱؎ حقوق العلم ۹۵ و تجدید تعلیم و تبلیغ ۱۱۵۔۲؎ آداب المعاشرت ص:۱۹۱ ۳؎ معمولات اشرفی ص:۸۱ ۴؎حسن العزیز ۱؍۱۲۴۔