آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کے ساتھ وعظ کہاجائے اور اس میں احقاق حق وابطال باطل کیا جائے جیسا اب تک بزرگوں کا طریق رہا ہے یارسائل دینیہ کی صورت میں حدود شرعیہ کے اندر کہ تہذیب اس کے لوازم سے ہے اصلاحی مضامین شائع کئے جاویں یہ طریق نافع بھی زیادہ ہے اور بے خطر بھی ہے، اور قانون نقلی وعقلی ہے کہ جس مقصود کے دوطریق ہوں ایک صعب دوسرا ایسر توایسر کو اختیار کرنا چاہئے چنانچہ حدیث میں اس کا سنت ہونا مصرح بھی ہے ماخیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی آمرین الاختار ایسر ہما اوکماقال،پس اس قانون کی بناء پر اس طریق کو طریق مسئولہ عنہ پرترجیح ہوگی۔ اور یہ سب کلام اس وقت ہے جب اس طریق کے اختیارکرنے کی صرف وہ غایت ہوجوسوال میں ذکر کی گئی ہے اور اگر کوئی انفرد اً دوسری غایت ہو یا اشتراکاً دوسری غایت بھی ہو جوسوال میں مذکورہ نہیں مثلاً مقاومت ومصاومت آئینی یا غیر آئینی جیسا اس وقت بکثرت معتاد ہے ۔ تو پھر یہ سوال اپنے اطراف وجوانب کے اعتبار سے متعددتنقیحات کا محتاج ہے جس کے لئے ایک رائے خصوصی مجھ جیسے قلیل العلم کی کافی نہیں بلکہ علمائے محققین کی ایک معتد بہ جماعت کو جمع کرکے مشورہ کیاجائے واللہ اعلم۔۱؎اپنے فتوے پر دوسرے محقق سے تنقید کرانے کی رائے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : مجھ کو تبع روایات کی فرصت نہیں ،اس لئے درایت سے جو سمجھا ہوں اس کو نقل کرتاہوں ، بہتر یہ ہے کہ کسی محقق سے تنقید کرالی جائے ، اگر کسی دلیل سے اس کا خطا ہونا معلوم ہو مجھ کو بھی اطلاع کردی جائے ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ امدادالفتاویٰ ج۶ ص۳۳۴ ۲؎ امدادالفتاویٰ ج۱ص۱۶۳ سوال ۱۶۲