آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
حاصل یہ ہوا کہ وہ شخص گویا شرعاً کافر ہے مگرلغۃً کافر نہیں پس یہ جملہ توصادق ہوگیاکہ وہ نار میں داخل ہوتے وقت بمعنی لغوی کا فر اور منکر نہ ہوگا سو’’ لایدخل النارکافر‘‘ کہنے والے کو کیسے کافر کہتے ہو جب کہ اس کے قول میں یہ تاویل ہوسکتی ہے دیکھئے امام صاحب نے کس قدر احتیاط کی حالانکہ ایسا صریح کلمۂ کفر تھا ۔۱؎اسلاف واکابر کی احتیاط سلف نے اس بارہ میں بڑی احتیاط سے کام لیاہے یہی حالت ہمارے اساتذہ اور مشائخ اور برزگوں کی تھی کہ کسی کوکافر کہنے میں بڑی احتیاط کرتے تھے،میں نے ایک حکایت ایک کتاب میں دیکھی اور اس کو دیکھ کر مجھے بڑا غصہ آیا اور اس کاحکم فوراً ذہن میں یہی آیا کہ یہ شخص کافر ہوگیا، اورفوراً حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کے پاس گیا کہ دیکھئے حضرت! اس شخص کے کفر میں کیا کلام ہے؟ وہ حکایت یہ ہے کہ ایک شیخ نے اپنے مرید سے پوچھا کہ توخدا کو جانتا ہے ؟ اس نے کہا جی میں کیا جانوں خداکو،میں تو آپ کو جانتاہوں ، یہ کس قدربے ہودہ کلمہ ہے یہ شخص خدا کا انکار کرتا ہے اور خدا سے بھی زیادہ پیرکوسمجھتا ہے تو اس کے کفر میں کیا کلام ہے۔ مولانا ہنسے اور کہا:کیا اس لفظ کے کوئی صحیح معنی نہیں ہوسکتے ؟ میں نے کہا حضرت ! اس کے کیا معنی ہوسکتے ہیں جب ایک شخص خداہی کوجاننے کا منکر ہے تو اس کا ایمان کہاں ؟ فرمانے لگے اچھا ،تم جانتے ہوخدا کو ؟بتلاؤاللہ میاں کیسے ہیں ؟ بس یہ سوال کرنا تھا ،اب تو ہوش درست ہوگئے، میں حقیقت کو سمجھ گیا کہ مطلب (تاویل) یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت بلا واسطہ مجھ کو نہیں ہے بلکہ مجھے شیخ کے ذریعہ سے حاصل ہوئی اس سے زیادہ میں نہیں جانتا۔ (مولانامحمد یعقوب صاحب نے فرمایا) بھائی خدا کو جاننا توبڑا مشکل ہے وہ کون ------------------------------ ۱؎ الاسلام الحقیقی ص۴۵۶