آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
باب۴ بعض مسائل میں قاضی شرعی کی ضرورت اور ا س کاحل۱؎ شریعت محمدیہ اور ملت اسلامیہ میں بعض معاملات ایسے ہیں جن میں قاضی شرعی یعنی حاکم مسلم کا فیصلہ ہی معاملہ کو فیصل کرسکتا ہے حاکم غیر مسلم کا فیصلہ ان معاملات میں کسی درجہ میں بھی مفید نہیں ہوسکتا بلکہ شرعاً حاکم غیرمسلم کا فیصلہ ان معاملات میں کالعدم اور غیر قابل اعتبار ہے نمونہ کے لئے میں چند مسائل کاذکر کرتاہو ں جن میں مسلمانانِ ہند کو قاضی شرعی کی سخت ضرورت پڑتی ہے ۔چند وہ مسائل جن میں قاضی کا ہونا ضروری ہے ،مفتی کچھ نہیں کرسکتا (۱) کسی لڑکی کا نکاح بلوغ سے پہلے اس کے ولی نے جوباپ دادا کے سواہو کردیا اور بالغ ہونے پر لڑکی اس نکاح سے راضی نہیں تو اس نکاح کو قاضی شرعی چند شرائط کے ساتھ فسخ کرسکتا ہے، حاکم غیر مسلم اگر فسخ کرے گا تووہ فسخ معتبر نہیں ہوگا، ۲؎ (۲) کسی بالغ عورت نے اپنا نکاح خاندانی مہر سے کم مقدار پر یاکسی غیرکفوسے بدون رضائے ولی کے کرلیا تواصل مذہب میں خاندان والوں کو حق دیاگیا ہے کہ وہ قاضی کی عدالت میں دعویٰ کرکے پہلی صورت میں مہر پوراکرالیں اور دوسری صورت میں نکاح کو فسخ کرادیں ( شامی معہ درمختارص۴۸۶ج۲ وص۵۳۱ ج۲ ) یہ نکاح فسخ کرنا قاضی ہی کا کام ہے دوسرے کا نہیں ۔ (۳) کسی شخص نے اپنے بیٹے کی بیوی سے زناکیا یابدنیتی سے ہاتھ لگایا تویہ عورت اپنے شوہر کے لئے حلال نہیں رہی مگر نکاح اس وقت تک نہیں ٹوٹتا جب تک ------------------------------ ۱؎ ماخوذ از رسالہ ’’القول الماضی فی نصب القاضی‘‘ ۲؎ شامی معہ درمختارص۴۸۶ج۲، وہدایہ ص۲۹۷ج۲