آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اہل علم اور مفتیوں میں اختلاف ہو تو عوام کیا کریں بہت سے لوگ جو اس حقیقت سے واقف نہیں وہ مذاہب فقہاء اور علماء حق کے فتووں میں اختلاف کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، ان کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ علماء میں اختلاف ہو تو ہم کدھر جائیں حالانکہ بات بالکل صاف ہے کہ جس طرح کسی بیمار کے سلسلہ میں ڈاکٹروں ، طبیبوں کا اختلاف رائے ہوتا ہے تو ہر شخص یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان میں سے فنی اعتبار سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار کون ہے بس اس کا علاج کرتے ہیں ۔ دوسرے ڈاکٹروں کو برا نہیں کہتے، مقدمہ کے وکیلوں میں اختلاف ہوجاتا ہے تو جس وکیل کو زیادہ قابل اور تجربہ کار جانتے ہیں اس کے کہنے پر عمل کرتے ہیں ،دوسروں کی بدگوئی کرتے نہیں پھرتے، یہی اصول یہاں ہونا چاہئے، جب کسی مسئلہ میں علماء کے فتوے مختلف ہوجائیں تو مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد جس عالم کو علم اور تقویٰ میں دوسروں سے زیادہ افضل سمجھیں اس کی اتباع کریں اور دوسرے علماء کو برا بھلا کہتے نہ پھریں ۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اعلام الموقعین میں نقل کیا ہے کہ ماہر مفتی کا انتخاب اور در صورت اختلاف ان میں سے اس شخص کے فتوے کو ترجیح دینا جو اس کے نزدیک علم اور تقویٰ میں سب سے زیادہ ہو، یہ کام ہر صاحب معاملہ مسلمان کے ذمہ خود لازم ہے، اس کا کام یہ تو نہیں کہ علماء کے فتووں میں کسی فتوے کو ترجیح دے، لیکن یہ اسی کا کام ہے کہ مفتیوں اور علماء میں سے جس کو اپنے نزدیک علم اور دیانت کے اعتبار سے زیادہ افضل جانتا ہے اس کے فتوے پر عمل کرے مگر دوسرے علماء اور مفتیوں کو برا کہتا نہ پھرے، ایسا عمل کرنے کے بعد اللہ کے نزدیک وہ بالکل بری ہے اگر حقیقۃً کوئی غلطی فتویٰ دینے والے سے ہو بھی گئی تو اس کا وہی ذمہ دار ہے۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ معارف القرآن ، سورۂ انعام ۳؍۳۶۶۔