آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
فصل (۳) جب تک کہ شرح صدر نہ ہو اس وقت تک جواب دینا جائز نہیں فرمایا کہ جب کسی سوال کے جواب میں شرح صدر و شفاء قلب نہ ہو صاف جواب دیدے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ ہر سوال کے لیے ضروری نہیں کہ اس کا جواب ہی دیا جائے نیز یہ بھی جواب ہے کہ ہم کو معلوم نہیں ، لیکن لوگ جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں خواہ شفاء قلب ہو یا نہ ہو یہ جائز نہیں ۔۱؎ مجھ کو جب تک شرح صدر نہ ہوجائے مسئلہ میں جواب نہیں دیتا، تردد کی صورت میں مسئلہ کا جواب دینا جائز نہیں اور اطمینان ہوجانے پر مؤاخذہ نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ مسئلہ کا جواب ہی دیا جائے خواہ اس میں تردد ہی ہو، بلکہ اگرخود اطمینان نہ ہو اوروں پر حوالہ کردیا جائے کہ سائل دوسری جگہ دریافت کرلے اور اس میں راحت کیسی ہے اور خواہ مخواہ جواب دینے میں یہ ہے کہ روزانہ کتابیں دیکھو، ٹکریں مارو پھر اعتراض پڑے جواب دو۔ یہ ساری خربیاں اپنے کو بڑا سمجھنے کی ہیں ، یوں خیال کرتے ہیں کہ اگر جواب نہ دیا تو لوگ کہیں گے کہ جواب بھی نہ دیا، بعض علماء میں جو تاویل کا مرض ہے یہی خرابی کا باعث ہے کہ جو بات منہ سے نکل گئی اسی پر اڑے ہوئے ہیں ، خواہ غلط ہی کیوں نہ ہو، صرف اس وجہ سے کہ لوگ ذلیل سمجھیں گے۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ حسن العزیز ۲؍۳۱۹۔ ۲؎ حسن العزیز ۳؍۵۹۔