آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
باب۳ آداب الفتویٰ فصل (۱) ہر سوال کا جواب نہیں دینا چاہئے مفتی کو ہر سوال کے جواب کے لیے فوراً نہیں تیار ہوجانا چاہئے، علماء میں فی زماننا (یہ عادت) رائج ہے کہ ہر سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتے اور اس کو اپنا فخر جانتے ہیں ۔ عوام کے سامنے دقیق مسائل بیان کرنا ایسا ہے جیسا کہ بچہ کو روپیہ پیسہ اور قیمتی اسباب پر قبضہ دے دینا، یا بچہ کے ہاتھ میں چھری چاقو دے دینا یا سربازار گاتے پھرنا کہ ہمارے پاس اتنا مال ہے یا جو کوئی پوچھے کہ تمہارا مال کہاں رکھا ہے اس کو بتا دینا اور نہ بتانے کو جھوٹ سمجھنا۔ ۱؎آج کل کی عام غلطی (لیکن) آج کل تو ذرا سے سوال پر اپنی تحقیقات بیان کرنے لگتا ہے چنانچہ آج کل لوگوں کو یہ سبق مل گیا ہے کہ جو ملتا ہے سلطان ابن سعود کے متعلق سوال کرتا ہے کہ ان کے بارے میں آپ کا کیا اعتقاد ہے؟ اب لگے مولوی صاحب اپنی تحقیق بیان کرنے جس میں خواہ مخواہ فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ صاحبو! صاف یوں ہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں اور یہ کہہ کر اپنے کام میں لگو، اور واقعی ہندوستان کے رہنے والوں کو کیا خبر، ہمارے پاس بجز اخباروں ------------------------------ ۱؎ مجالس الحکمت ص:۲۸۔