آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
حصول میں مقصود اہم جماعت یعنی توسط امام کی مخالفت لازم آتی ہے لہٰذا یہ مقصود بھی اس قابل ہے کہ ملحوظ نظر نہ ہو، اور اصل یہ ہے کہ اغراض کو اس میں دخل نہیں کیونکہ مسجد کو غیر مسجد کے استعمال میں لانا گو کسی غرض مسجد ہی کے لیے ہوجائز نہیں ہے۔۱؎ فقط والسلامحکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب کا جواب (بعد القاب وآداب) والا نامہ نے مشرف فرمایا ،اظہار حق کا تکرار حاشا وکلّا کہ قلب پر بار ہو، اور بحمداﷲ مجھ کو تو عادت ہے کہ جب کسی امر کا حق ہو ناواضح ہوجاتا ہے پھر اپنی رائے پر اصرار نہیں ہوتا، سواب تک اس کا انتظار ہے جو نہیں ہوا اورمجھ کو بھی تکرار فی الجواب خلافِ ادب معلوم ہوتا ہے مگر تحقیق نے اس پر جری کیا۔ قبل سائبان بننے کے تو وجدان سامی کو بجائے دلیل سمجھ کر اسکا اتباع کرتا مگر مجھ تک اس مضمون کا زبانی پیام صرف بدیں عنوان پہنچا کہ خارج مسجد کا پانی مسجد میں لینے کا مخدور لازم آئے گا چونکہ یہ بنا مفقود تھی کیونکہ سائبان کہ جس کا پانی مسجد میں گرتا، مسجد کا جزو بنایا جاتا تھا، سو اس کا پانی مسجد ہی کا پانی تھا اس لیے وہ بنا لیا گیا اب بعد بننے کے اس کی تفکیک میں خود شبہ تصرف فی المسجد بالہدم والخراب کی وجہ سے عدم جواز کا احتمال ہوگیا، سو اس احتمال کے رفع کے لیے نہایت صریح دلیل کی جو کہ کافی شافی ہو ضرورت ہے جو اب تک نہیں ملی، دیوار کے متعلق جو کچھ میں نے عرض کیا تھا وہ محض تبرعاً تھا جس کے لکھنے کی اصل وجہ تو استفسار گرامی کا جواب تھا اور ساتھ ہی یہ خیال بھی شامل ہوگیا تھا کہ اس کی تحقیق ہوجاوے گی، شاید کوئی صورت اس پرانی غلطی کی اصلاح کی نکل آئے، باقی نفس مسئلہ واقعہ میں اس کو کوئی دخل نہیں اور سائبان کا جواز اس پر موقوف نہیں کیونکہ اگر وہ جزومسجد نہ ہو، تو اس کو مسجد کے کام میں لانا بدرجۂ اولیٰ جائز ہوگا جیسا کہ عریضۂ سابقہ میں عرض کیا ہے، اور ظاہر بھی ------------------------------ ۱؎ امدادالفتاویٰ ،فتاویٰ خلیلیہ ص:۱۵۸