آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
المفتی (ای یجب علیہ) ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسنا للظن بالمسلم، زاد فی البزّازیۃ الا اذا صرح بارادۃ موجب الکفر فلا ینفعہ التاویل، والذی تحرر انہ لا یفتی بکفر مسلم أمکن محمل کلامہ علی محمل حسن او کان فی کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ من البحر۔ (۳؍۴۴۰) یعنی جب کسی مسئلہ میں بہت سی وجوہ ہوں جو کفر ثابت کرتی ہیں اور ایک وجہ کفر کی نفی کی ہو تو مفتی پر واجب ہوجاتا ہے کہ اس وجہ کی طرف میلان اختیار کرے جو کفر کی نفی کرتی ہے مسلمان کے ساتھ حسن ظن اختیار کرتے ہوئے۔ بزازیہ میں یہ عبارت زیادہ کی ہے کہ مگر جب اس شخص نے ایسے ارادے کی صراحت کردی جو کفر ثابت ہی کردیتا ہے تو اس وقت اسے تاویل نفع نہ دے گی، اور طے شدہ امر اور فیصلہ کن بات یہ ہے کہ جس کسی مسلما ن کے کلام کو اچھے معنی پر محمول کرنے کا امکان ہو، یا اس کے کفر میں اختلاف ہو اگر چہ ضعیف روایت کے مطابق ہو اس کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا جائے گا، جیسا کہ بحر الرائق جلد ۳، ص: ۴۴۰ پر ہے۔بلا تحقیق کفرکے فتووں کا انجام اوران مکفّرین کی جرأ ت یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ عوام سے گذر کر خواص یعنی علماء تک کو اپنی تکفیر کا نشانہ بناتے ہیں ، اور ان سے گذر کر اخصّ الخواص یعنی عارفین تک بھی پہنچتے ہیں ، اور ماشاء اللہ جن اقوال کی بناء پر تکفیر کرتے ہیں وہ ایسے دقیق ہوتے ہیں کہ ان مکفّرین کا طائر ذہن بھی وہاں نہیں پہنچتا، یا دقیق نہیں ہوتے مگر ناشی ایسے احوال سے ہوتے ہیں جن کی ہوا تک بھی ان محبوسان الفاظ و رسوم کو نہیں لگی تو ان کی تکفیر کرنا بالکل اس آیت کا مصداق ہوتا ہے۔ قال تعالیٰ: بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہِ وَلَمَّا یَأْتِہِمْ تَأْوِیْلُہُ۔ (یونس آیت:۳۹)