آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
نہیں لیکن مشکل اور دقیق بہت ہیں ہر شخص کے سمجھ میں نہیں آسکتے بلکہ عقل محض سے حل ہوہی نہیں سکتے ،ہاں اگر کوئی باقاعدہ علم حاصل کرلے اور عقل کی امداد نقل سے لے تو وہ ان کی تہ کو بخوبی پہنچ سکتا ہے بالکل کھلے ہوئے مسئلے ہیں ، پھر غضب یہ ہے کہ پوچھنے والوں میں لیاقت تو گلستاں اور بوستاں کی بھی نہیں ہوتی اور بحث کرتے ہیں ان مسئلوں میں پھر اس کے نتیجے دوہوتے ہیں اگر مزاج میں آزادی ہوئی تب تو آگے چل نکلتے ہیں اور کوئی ہمہ اوست کہتا پھرتا ہے اور کوئی جبر کاقائل ہوجاتا ہے حالانکہ سمجھتے کچھ بھی نہیں کہ ہمہ اوست کیا بلا ہے اور جبرواختیار کس کو کہتے ہیں اور اگر آزادی نہ ہوئی تو ان دونوں مسئلوں میں قسم قسم کے شکوک پیداہوجاتے ہیں پھر معاذاللہ یہ نوبت آتی ہے کہ نفس کہتا ہے یہ کیسا دین ہے جس میں ایسے مشتبہ مسائل ہیں ، قصور تو اپنا اور بدظنی دین سے ، صاحبو! ان مشغلوں کو چھوڑو اور کام میں لگو۔علماء اور مفتیوں کو مشورہ اور مجیب صاحبوں کو بھی مشورہ دیتاہوں کہ جب ایسے مسئلہ پوچھے جائیں اور سائل ان کے سمجھنے کاا ہل نہ ہوتوہر گز جواب نہ دیں ، عالم ہونے کی شان یہی نہیں کہ ہربات کے جواب کے لئے تیارہوجائیں آج کل دونوں طرف سے بے احتیاطی ہے سائل تو ایسے ہی مسئلوں کی چھیڑ چھاڑ کو دین سمجھے ہوئے ہیں اور علما ء اپنا کمال اس کو سمجھتے ہیں کہ سارے مسائل کو سمجھاہی کرچھوڑیں ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ وعظ ذم المکروہات ص۴۴۵