آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
جواب لکھنے میں جلدبازی نہ کرنا چاہئے اور دستی استفتاء کا جواب فوراً ،اورپیچیدہ مسئلہ کا جواب زبانی نہ دینا چاہئے مسئلوں کا معاملہ نازک ہوتا ہے کبھی کوئی کتاب دیکھنی ہوتی ہے اس میں تلاش کرنا ہوتا ہے کبھی غور کی ضرورت ہوتی ہے ادھر خط لانے والے کا تقاضہ ہوتا ہے (حالانکہ) جلدی میں امکان ہوتا ہے کہ غلطی رہ جائے یا نظر چوک جائے۔ چنانچہ ایک شخص دستی استفتاء فرائض کا لائے میں نے جواب لکھ دیا جب وہ چلاگیا تب خیال آیا کہ جواب میں غلطی ہوگئی، نہایت حیران تھا کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آتی تھی، آخر حق تعالیٰ سے دعا کی کہ اب میر ے اختیار سے خارج ہے آپ چاہیں تو سب کچھ کرسکتے ہیں آدھ گھنٹہ کے بعد دیکھتا ہوں کہ وہی شخص چلا آرہا ہے پھر اس کو صحیح جواب لکھ کر حوالہ کیا اور عزم کرلیا کہ آئندہ کبھی دستی فتویٰ کا جواب ہاتھ کے ہاتھ نہ لکھ کر دوں گا۔ چنانچہ اب میں خط لانے والے سے یہی کہہ دیتا ہوں کہ ٹکٹ رکھ جاؤ ڈاک سے بھیج دوں گا۔۱؎ عالم(ومفتی) کو چاہئے کہ (مسئلہ واستفتاء کا) جواب جلدی نہ دے، بلکہ سوچ سمجھ کر جواب دے ، اور جو مسئلہ پیچیدہ ہو اس کا جواب زبانی کبھی نہ دیں ۲؎یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ سوال سے سائل کی کیا مراد ہے ایک صاحب کا خط آیا ہے کہ بلا مجامعت اور خلوت صحیحہ کے ایک شخص نے اپنی عورت کو تین طلاق دیدیا اس صورت میں عدت ہے یا نہیں ؟ یہ سوال اگر کسی اور جگہ جاتا تو جواب میں لکھ دیتے کہ عدت نہیں ، مگر مجھ کو وہم ہوا کہ معلوم نہیں یہ شخص خلوت صحیحہ کو بھی سمجھتا ------------------------------ ۱؎ ا حسن العزیز ۱؍۱۲۴ ۲ ؎ با لاخواۃ التبلیغ ص۹۳