آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
شاگرد کا استاداورمرید کا اپنے پیر کے فتوے پر اعتراض کرنا فرمایا کہ ایک معاملہ میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب نے ایک فتوے لکھا، حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتویؒ کے مشہور مرید امیر شاہ خان صاحب نے اس پر کچھ اعتراض کیا اور لکھ کر ڈاک میں ڈال دیا اس کے بعد خیال آیا کہ میں نے بے ادبی کی تو دوسرا خط معذرت اور معافی کے لیے لکھا۔ حضرت مولانا گنگوہی نے جواب میں تحریر فرمایا کہ مجھے آپ کا پہلا خط جس میں اعتراض تھا پسند آیا، یہ دوسرا پسند نہیں آیا کیونکہ پہلے خط میں آپ نے جو کچھ لکھا تھا وہ خالص دین کے لیے تھا اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی نیت بے ادبی کرنے کی نہیں تھی اس لیے ذرہ برابر ناگواری نہیں ہوئی ۔۱؎مجتہدین کے اختلافی مسائل میں بحث و تحقیق کی زیادہ کاوش مناسب نہیں غلو ٹھیک نہیں جس کا فتویٰ صحیح سمجھ میں آئے اس پر عمل کرو، ہم کوئی موسیٰ علیہ السلام توہیں نہیں جب ہم جیسے نالائق امام اعظم کے بعض فتوؤں کو غلط کہہ دیتے ہیں تو ہمارے فتوے کیا ہیں ، یہ عقیدہ کہ ان سے غلطی نہیں ہوتی بہت غلو ہے۔۲؎ فرمایا: جن مسائل میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے ان میں بحث و تحقیق کی زیادہ کاوش طبعاً ناگوار ہے کیونکہ سب کچھ تحقیقات کے بعد بھی انجام یہی رہتا ہے کہ اپنا مذہب صواب محتمل الخطاء اور دوسروں کا مذہب خطا متحمل الصواب ہے کتنی ہی تحقیق کرلو، کسی امام مجتہد کے مسئلہ کو بالکل غلط قرار نہیں دیا جاسکتا اسی لیے میں اس بات سے بہت گریز کرتا ہوں ۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ مجالس حکیم الامت ص ۱۰۰ ۲؎ مجالس حکیم الامت ص ۱۷۱ ۳؎ حسن العزیز ص:۳۷۰۔