آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
’’ ہم نے اپنی معلومات کے مطابق جواب لکھ دیا ہے اگر پسند نہیں ہے تو جس عالم پر اعتماد ہو اس سے رجوع کرو‘‘۔ وَفوْقَ کلِّ ذِیْ علم علیم۔۱؎اعتراض و جواب کے درپے نہ ہونا چاہئے ایک دفعہ مولانا کے ایک تصحیح کردہ فتویٰ پر کہیں سے کچھ اعتراضات لکھے ہوئے آئے تھے میں نے اس کا جواب لکھنا چاہا، مو لانا نے فرمایا کہ اس کا جواب مت لکھنا صرف یہ لکھ دو کہ اس کا جواب تو ہے مگر ہم مرغان جنگی نہیں ہیں کہ سوال و جواب کا سلسلہ دراز کریں ، بس اس جواب کا حق ایک دفعہ ادا ہوگیا تھا، اور یہ لکھ دو اگر اطمینان نہ ہو تو ’’فوْقَ کلِّ ذِیْ علمٍ علِیْم‘‘، دوسری جگہ دریافت کرلو، جنگ و جدل سے معاف کرو، مولانا کی بات اس وقت تو سمجھ میں نہ آئی تھی مگر اب اس کی قدر معلوم ہوتی ہے جنگ و جدل کرنا اس کا کام ہے جس کو فرصت ہو اور بیکار ہو۔ اس کی مثال ایک حکایت ہے کہ ایک شخص کی داڑھی میں سفید بال تھے جب حجام خط بنانے بیٹھا تو کہنے لگے کہ سفید بال چن دو۔ نائی نے ساری داڑھی صاف کردی اور کہا کہ تم خود چن لو مجھ کو فرصت نہیں ، کام کا آدمی بکھیڑوں سے اس طرح گھبراتا ہے ہاں شرعی ضروت ہو تو اور بات ہے، جو سمجھنا چاہئے اس کو سمجھا سکتے ہیں اعتراض کا تو کوئی جواب نہیں ۔۲؎اختلافِ فتویٰ کی صور ت میں دوسرے علماء کے حوالہ کرنا حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے حضرت حسین ؓ کو سید الشہداء کا لقب دینے سے متعلق ایک سوال کاجواب تحریر فرمایاتھا ،اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں : ------------------------------ ۱؎ مجالس حکیم الامت ص: ۱۰۰۔ ۲؎ حسن العزیز ۱؍۵۴۵۔