آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
امر تکفیر میں اور بھی شدید ہیں ، حجت ہوا، کہ ان کے متبوع مسلَّم کا فتویٰ ہے ، اور ہم نے جو امر تکفیر میں احتیاط کرنے کو کہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کوئی صریح کفر کا کام کرے یا صریح کفر کی بات کرے جس میں تاویل نہ ہوسکے یا ہوسکے، مگر خود وہ فاعل یا قائل اس کا انکار کرے تب بھی اس کی تکفیر نہ کی جائے۔ہر امر میں حدود شرعیہ کا لحاظ واجب ہے چنانچہ ایک کوتاہی اس اول کوتاہی کے مقابل اس باب میں یہ بھی ہے کہ علماء پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ذرا ذرا سی بات میں تکفیر کردیتے ہیں ، ان معترضین کے نزدیک وہ بات ذرا سی ہوتی ہے ان صاحبوں کو یہ آیت پیش نظر رکھنا چاہئے: وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیَاتِہِ وَرَسُوْلِہِ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُوْنَ۔ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ۔ (التوبہ آیت :۶۵-۶۶) (اور اگر آپ ان سے پوچھیں تو کہہ دیں گے ہم تو محض مشغلہ اور خوش طبعی کررہے تھے آپ (ان سے) کہہ دیجئے گا کہ کیا اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ اور اس کی آیتوں کے ساتھ تم ہنسی کرتے تھے، تم اب یہ بے ہودہ عذر مت کرو، تم اپنے کو مومن کہہ کر کفر کرنے لگے)۔ اور اوپر یہ عبارت گذر چکی ہے: الا اذا صرح بارادۃ الکفر فلا ینفعہ التاویل۔ خلاصہ یہ کہ ہر امر میں حدودِ شرعیہ کا پاس واجب ہے، نہ ان کا تنابز ہو اور نہ ان سے تجاوز ہو۔ ۱؎ ------------------------------ ۱؎ اصلاح انقلاب ۲؍۲۲۸ تا ۲۳۱