آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کہ بی بی فاطمہ کے نام کے کونڈوں کو منع کروں ، میں نے منع نہیں کیا کسی نے آپ سے غلط کہہ دیا بلکہ بی بی فاطمہ کے ابا جان (یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) منع کرتے ہیں ۔۱؎أبہموا ما ابہمہ اﷲ ’’یعنی اللہ نے جن امور کو مبہم رکھا ہے ان کو مبہم رکھو‘‘۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن مجید کے ایصالِ ثواب میں سب کوبرابر ثواب ملے گا یا سب پر تقسیم ہوگا؟ فرمایا: عقائد مبہمہ میں جازم (یقینی) جواب دینا ضروری نہیں اس میں صحابہ کرام کا طرز نہایت اچھا تھا کہ مبہم کا عقیدہ مبہم رکھتے تھے، شریعت نے اس میں تفصیل بیان کرنے کو ضروری نہ سمجھا۔ اسی طرح نماز اور وضو دونوں نص کی تصریح کے مطابق مکفِّر سیئات ہیں ہم کو اس سے بحث نہیں کہ کس قدر کس سے کفارہ ہے یہ نصوص میں بھی مبہم ہے تم بھی مبہم رکھو، محض ظن کی بناء پر خاص تعیین کے درپے نہ ہو یہ تو وہ پوچھے جس کو نعوذباﷲ ! اللہ سے مطالبہ کرنے کا ارادہ ہو۔عقائد میں ظن کا دخل نہیں البتہ فقہیات میں ہے کیونکہ فقہ میں عمل کی ضرورت ہے اور عقائد میں کون سی گاڑی اٹکی ہے اس کو طالب علم یا درکھیں ۔ ۲؎ سوال: (۷۳۴) ایصالِ ثواب جو چند مردگان کو کیا جاتا ہے وہ سب کو برابر پہنچتا ہے یا تجزی سے پہنچتا ہے؟ الجواب: جس امر میں نص نہ ہو اگر وہ احکام فقہیہ جواز و عدم جواز میں سے ہو تو اس میں قیاس کرنا’’ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار‘‘غیرہ نصوص سے مامور بہ ہے، اور اگر وہ احکام فقہیہ سے نہ ہو تو اس میں قیاس کرنا’’ لاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْم‘‘ وغیرہ نصوص سے منہی عنہ ہے، اور امر مسئول عنہ احکام فقہیہ میں سے نہیں ،اور نص موجود نہیں ، لہٰذا قیاس سے کلام کرنا منہی عنہ ہوگا، اور جن علماء سے کلام منقول ہے مقصود ان کا حکم لگانا نہیں ، بلکہ محض بعض احتمالات کی اقربیت بیان کرنا ہے۔ واللہ اعلم۔۳؎ ------------------------------ ۱؎ الافاضات الیومیہ ص۴۰۹ج۲،حسن العزیز ۴؍۲۶۳۔ ۲؎ کلمۃ الحق ص۲۳۔ ۳؎ امداد الفتاوی ۱؍۷۸۴