آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
دلیری ختم کرنے کے لیے مصلحتاً گول مول جواب دینا فرمایا: ایک شخص نے دریافت کیا تھا کہ اجنبیہ کا بوسہ لینے سے روزہ فاسد ہوتا ہے یا نہیں ؟ میں نے یہ جواب دیا تھا کہ ’’یہ کیوں نہیں دریافت کیا کہ گناہ بھی ہوتا ہے یا نہیں ؟ ‘‘آج پھر خط آیا ہے کہ یہ تو مجھ کو معلوم تھا، میں نے آج جواب لکھا ہے کہ جب روزہ میں معاصی صادر ہوں تو وہ مقبول نہیں ہوتا تو پھر اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے اگر میں ضابطہ کا جواب دیتا ہوں کہ فاسد ہوجاتا ہے تو غلط ہوتا اس لیے میں نے ایسا جواب دیا ہے کہ جس سے نہ فتوی غلط ہو نہ دلیری بڑھے اہل علم کو ایسے پہلوؤں کا خیال رکھنا چاہئے بلا سوچے سمجھے فوراً جواب نہ دیدے۔۱؎ ایک صاحب نے استفتاء کیا ہے کہ میرے لیے بجز ملازمت سرکاری کے اور کوئی صورت معاش کی نہیں اور سرکاری ملازمت بغیر ڈاکٹری معائنہ کے ہونہیں سکتی اور ڈاکٹری معائنہ میں بالکل برہنہ ہونا پڑتا ہے اور میں منتخب ہوچکا ہوں ، اس ملازمت کے لیے صرف ڈاکٹری معائنہ کی رکاوٹ باقی ہے تو کیا اس مجبوری میں ڈاکٹری معائنہ جائز ہے یا نہیں ؟ حضرت نے جواب تحریر فرمایا کہ جائز سمجھنے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ ناجائز سمجھا جائے اور کرالیا جائے اس کے بعد توبہ کرلی جائے۔ پھر فرمایا کہ ایسے جواب کی یہ بھی وجہ ہے کہ اب کیا معلوم کہ واقعی اس کے سوا اور تمام ذرائع آمدنی کے ان کے لیے مفقود ہیں یا نہیں کیونکہ گھاس تو کھود سکتے ہیں ، کسی مسجد میں موذنی تو کرسکتے ہیں البتہ تنعم چاہتے ہوں تو دوسری بات ہے پھر ضرورت کے تحقق پر بھی اگر میں یہ لکھ دیتا ہوں کہ جائز ہے تو جرأت بڑھ جاتی نامعلوم کہاں تک نوبت پہنچتی، میرے اس جواب میں اہل عمل کے لیے بڑا سبق ہے کہ وہ ایسے خیالات کی رعایت رکھا کریں ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ کلمۃ الحق ص:۱۳۴۔ ۲؎ الافاضات ۱۰؍۱۹۹۔